Urdu Quote

General Knowledge

newgazal

Latest Updates

سوانح نگاری کی تعریف

May 14, 2019

کسی بھی نامور شخص کی زندگی کے حالات تفصیل کے ساتھ ایک کتاب میں پیش کرنے کا فن سوانح کہلاتا ہے۔سوانح میں کسی مشہور شخص کی زندگی کے محاسن اور معائب دونوں بیان کئے جاتے ہیں۔ سوانح میں مستند اور جامع مواد کی پیشکشیں ضروری ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس حقیقت پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے کہ جس شخص پر سوانح لکھی جارہی ہے اس کی زندگی کے تمام کارناموں کو کتاب میں سلسلہ وار بیان کردیا جائے۔ اگر کتاب میں صرف محاسن و کمالات بیان کئے جائیں تو ایسی سوانح ادبی معیارات کی تکمیل نہ کر سکے گی۔

سوانح میں نہ تو شخصیت کے بارے میں فرضی واقعات بیان کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی مبالغہ آمیز اسلوب۔مولانا الطاف حسین حالی کو اردو کا اولین اور سب سے بہترین سوانح نگار کا درجہ حاصل ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے شیخ سعدی علیہ رحمۃ الرحمن کی حیات پر "حیات سعدی” اس کے بعد مرزا غالب پر "یادگار غالب” اور آخر میں سرسید احمد خان پر "حیات جاوید” لکھ کر اردو ادب میں سوانح کی بنیاد رکھی۔

آج کا دن تاریخ میں

February 14, 2019

آج کا دن تاریخ میں


13 فروری

1968 امریکا نے ساڑھے دس ہزار مزید فوجی ویتنام بھیجے

1960 فرانس نے پہلا جوہری تجربہ کیا

1959 لڑکیوں کی پسندیدہ باربی ڈول پہلی بار فروخت کے لئے پیش کی گئی

1911 اردو کے معروف انقلابی اور رومانوی شاعر فیض احمد فیض کا یوم پیدائش

1861 ابراہم لنکن امریکا کے صدر بنے

1668 اسپین نے پرتگال کی آزادی تسلیم کی

⭕ 1991 میں عراق نے عراق پر بم حملہ کیا جس میں 334 افراد ہلاک ہوگئے.

عللامہ اقبال

February 14, 2019

عللامہ اقبال
ایک واقعہ، ایک سبق


علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-

وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے، 
اور اس سے بولے،
" کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟"
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
" ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی، 
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو"؟
بچہ: " میں یہودی ہوں"-

" میں یہودی ہوں " 
یہ الفاظ اور یہ عزم،
علامہ اقبال کے ہوش فاختہ ہوگئے-
ان کاذہن کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا-
اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے-

وہ یونان، اسپین، مصر، ایران کی فتح کی کہانیوں سے لیکر ان کو گنوا دینے تک کی وجوہات کا سفر کرنے لگے-
شاید دل چیخ رہا ہوگا کہ،
ہائے میری قوم،
ہائے ہمارے بچے،
میں تم میں شاہین ڈھونڈ رہا ہوں،
لیکن عقاب تو یہودی گھروں میں پل رہے ہیں-

حقیقت خرافات میں کھو گئی،
یہ امت روایات میں کھو گئی-
(منقول)

مرد ھوّس کا پجاری

February 14, 2019

*🌷بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون🌷 *


          🔺مرد ھوّس کا پجاری🔺

✍🏻جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے۔ اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ہے
پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ہے۔
باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ہے۔
اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ہے
واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ہے
ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ہے
اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ہے
اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ہے۔''

لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ہے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ہے
اور کیوں نا ھو؟

 کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ہی ہوتا ہے۔

 جب عورت گھر سے باہر ہوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے ھیں

ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے

"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو

ھم نے سرِبازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"

مرد

میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤں گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔
میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔
(🌴 بانو قدسیہ🌴)

🤲🏻 دعا کیجیے 🤲🏻 دعا لیجیے 🤲🏻 دعادیجیے 🤲🏻
🌴کاپی پیسٹ

مطالعہ سے کیا ملتا ہے؟

February 14, 2019

مطالعہ سے کیا ملتا ہے؟


 *۔۔۔مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔ (علامہ اقبالؒ)

 *۔۔۔ بُری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ (امام غزالیؒ)

 *۔۔۔ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ (حکیم ابو نصر فارابیؒ)

 *۔۔۔ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لئے۔ (ایڈیسن)

 *۔۔۔ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ (بیکن) 

*۔۔۔مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دُنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ (سمر سٹ ماہم) 

*۔۔۔ تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آجاتا ہے۔ (چینی ضرب المثل) 

*۔۔۔انسان قدرتی مناظر اورکتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ (سسرو)

 *۔۔۔ مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اوردوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی۔ (وائٹی)

 *۔۔۔دماغ کے لئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لئے پانی کی۔ (تلسی داس) 

*۔۔۔مطالعہ کسی سے اختلاف کرنے یا فصیح زبان میں گفتگو کرنے کی غرض سے نہ کرو بلکہ ’’تولنے‘‘ اور’’سوچنے‘‘کی خاطر کرو۔ (بیکن) 

*۔۔۔کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور بنادیتا ہے۔ (ملٹن) 

*۔۔۔ جو نوجوان ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہے، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میں بالکل متفکر نہ ہونا چاہئے۔ ( ولیم جیمز)

 *۔۔۔ مطالعے سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، ترتیب وتدوین میں استعداد اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ (بیکن)

 *۔۔۔ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں۔ ( میکالے) 

*۔۔۔ مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اوراس کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ (شیلے) 

*۔۔۔ دنیا میں ایک باعزت اورذی علم قوم بننے کے لئے مطالعہ ضروری ہے مطالعہ میں جوہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ (گاندھی جی)

 *۔۔۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کتابوں کے مطالعہ نے انسان کے مستقبل کو سنوار دی۔

ایوانِ تنقید و تفہیم

February 11, 2019

ایوانِ تنقید و تفہیم        (غزل  برائے تنقید و تبصرہ)





شاعر:  سفیر صدیقی

گفتگو: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ہو بیٹھا ہے کسی کی طلب میں ملنگ دل 
 اب چاہتا ہے عقل سے اک سرد جنگ دل 

 وہ مجھ کو سر پٹکنے پہ مجبور کر گیا 
 آیا تھا ایک شخص مرے پاس سنگ دل 

 آتش گرفتہ خوابوں سے اٹھتا ہوا دھواں 
 کر ڈالے گا سیاہ مرا سرخ رنگ دل 

 بیٹھا دو اس کو عقل کی صحبت میں تھوڑی دیر 
 رہ جائے گا خود اپنے ارادوں پہ دنگ دل 

 بدلا سا لگ رہا ہے محبت کے بعد تو 
 کچھ اور ہوگئے ہیں ترے رنگ ڈھنگ، دل! 

 یہ بےبسی کا ظلم نیا تو نہیں سفیر! 
 کھاتا رہا ہے وقت کے تیر و تفنگ دل

اردو زبان کے شعرا کی فہرست

February 01, 2019

اردو زبان کے شعرا کی فہرست

ذیل میں اردو شعرا کی فہرست درج ہے جو ان کی تاریخ پیدائش کے لحاظ سے مرتب کی گئی ہے۔ شاعر کے نام کے بعد ترچھے متن میں شاعر کا تخلص بھی درج کیا گیا ہے۔


تیرہویں صدی

امیر خسرو (1253–1325)

پندرہویں صدی

میرا (1498–1546)

سولہویں صدی (1501ء تا 1599ء)

محمد قلی قطب شاہ (1565–1611)، ابتدائی طور پر انھوں نے فارسی اور ہندی زبان میں شاعری کی۔
شاہ علی محمد جیو گام دھنی (1562 (م))، احمد کبیر رفاعی کی اولاد میں سے تھے۔ ان کا دیوان جواہر اسرار اللہ کے نام سے ملتا ہے، جس کے قلمی نسخے جامعہ پنجاب پاکستان اور حیدرآباد، دکن میں موجود ہیں۔ اس کی ممبئی سے اشاعت ہو چکی ہے۔
شاہ برہان الدین جانم (1582ء م)، شاہ میراں جی شمس العشاق کے فرزند تھے ان کی کتاب ہشت مسائل مشہور ہے جس میں سوال و جواب کے انداز میں معراج کا ذکر ہے۔
غلام مصطفٰی احمد آبادی ایک نور نامہ 1593ء میں شائع کیا۔

سترہویں صدی

ولی محمد ولی، ولی دکنی (1667–1707)
آبرو شاہ مبارک (1685–1733)
ولی عزلت، (1692–1781)
مظہر جان جاناں (1699–1781)
حاتم شاہ (1699–1783)
سید بلاقی

اٹھارہویں صدی

شیخ ̠ظہورالدین، حاتم ( 1700–1783)
مرزا محمد رفیع، سودا (1713–1780)
سراج اورنگ آبادی، درد (1721–1785)
میر تقی میر، میر (1723–1810)
شیخ قلندر بخش جرات، جرات (1723–1810)
ميرمحمدی بیدار، (1732–1796)
نظیر اکبر آبادی، نذیر (1740–1830)
شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی(1751ء – 1825ء)
سعادت یار خان رنگینرنگین(1755ء – 1834ء)
انشاء اللہ خان انشاء، انشاء (1756–1817)
شاہ نصیر، نصیر(1756–1838)
بہادر شاہ ظفر، ظفر (1775–1862)
امام بخش ناسخ، ناسخ (1776–1838)
خواجہ حیدر علی آتش، آتش (1778–1846)
میرکلوعرش (1783–1867)
محمد ابراہیم خان، ذوق (1789–1854)
مرزا اسد اللہ خاں غالب، غالب (1796–1869)

انیسویں صدی

دیا شنکر کول نسیم، (1811–1845)
مومن خان مومن مومن (1801–1852)
مرزا سلامت علی دبیر (مرزا سلامت علی) دبیر (1803–1875)
میر ببر علی انیس انیس (1803–1874)
امیر مینائی (1828–1900)
داغ دہلوی (نواب مرزا داغ) داغ (1831–1905)
الطاف حسین حالی (حالی پانی پتی) حالی (1837–1914)
بیخود بدایونی (محمد عبد الحئی صدیقی)، بیخود (1857–1912)
اکبر الہ آبادی (سید اکبر حسین) اکبر (1846–1921)
ریاض خیرآبادی (سید ریاض احمد) (1853-1934)
بیخود دہلوی (سید وحید الدین احمد) (1863-1955)
شبلی نعمانی (علامہ شبلی نعمانی) (1857–1914)
محمد بیچو برقؔ (1865-1926)
سائل دہلوی (نواب سراج الدین احمد خان) (1868-1945)
جلیل منیکپوری (جلیل حسین) جلیل (1869-1946)
ثاقب لکھنوی (مرزا ذاکر حسین قزلباش) (1869-1949)
منشی محمد بیکانو بیدلؔ (1872-1962)
محمد اقبال (1873–1938)
غلام بھیک نیرنگ (1875–1952)
حسرت موہانی (سید فضل الحسین) حسرت (1875–1951)
ناطق لکھنوی (مرزا ذاکر حسین قزلباش) (1878-1950)
فانی بدایونی (شوکت علی خان) فانی (1879-1941)
عبد العزیز فلک پیما، (1881–1951)
برج نارائن چکبست، (1882–1926)
سیماب اکبرآبادی (عاشق حسین) (1882-1951)
یگانہ چنگیزی (مرزا واجد حسین یاس) یاس(1883-1956)
تلوک چند محروم (1885–1966)
جگر مراد آبادی (علی سکندر) جگر (1890–1960)
مصطفی رضا خان، نوری (1892–1981)
جوش ملیح آبادی (شبیر حسین خان) جوش (1894–1982)
فراق گورکھپوری (رگھوپتی سہائے) فراق (1896–1982)
افسر صدیقی امروہوی (1896–1984)
رام پرساد بسمل (1897-1927)

1900ء

پنڈت ہری چند اختر ('اختر') (1900-1958)
حفیظ جالندھری (محمد حفیظ) (1900-1982)
بسمل عظیم آبادی (سید شاہ محمد حسن) (1900-1978)
آنند نارائن ملا (1901ء - 1997ء)
مخمور دہلوی (فضل الِہی) (1901-1965)
بابا جمال بہرائچی جمال الدین (1901-1976)
عندلیب شادانی (وجاحت حسین) (1902-1969)
شفیع بہرائچی(حاجی شفیع اللہ ) (1902-1973)
رافت بہرائچی(منشی محمد یار خاں) (1902-1961)
شاد عارفی (1903-1964)
چراغ حسن حسرت ('حسرت') (1904-1955)
سید سجاد ظہیر (1904-1973)
مجنوں گورکھپوری (1904ء - 1988ء)
ذوالفقارعلی بخاری (1904-1975)
اختر شیرانی (محمد داؤد خان) (1905-1948)
م حسن لطیفی (1905-1959)
حکیم محمد اظہر وارثی(1905-1969)
ساغر نظامی (1905-1984)
حیدر دہلوی (1906-1958)
سید عابد علی ('عابد') (1906-1971)
مخدوم محی الدین (1908–1969)
منور بدایونی (1908-1984)
عرش ملسیانی (بل مکند) (1908-1979)
روش صدیقی ('روش') (1909-1971)
عبدالحمید عدم ('عدم') (1909-1976))
شیر افضل جعفری (1909-1989)
شاعر لکھنوی

1910ء

ن م راشد (1910-1975)
مجاز (اسرار الحق) (1911-1955)
فیض احمد فیض، فیض (1911-1984)
اعجاز صدیقی (1911-1978)
نشور واحدی (1911-1981)
ابو الفضل سید محمود قادری (1911-2000)
میراجی (1912-1949)
معین احسن جذبی (1912- 2005)
احتشام حسین (1912-1972)
ساحر بھوپالی (1913-1976)
ضیاء فتح آبادی مہر لال سونی (1913-1986)
ڈاکٹر رفیق حسین (1913–1990)
علی سردار جعفری (1913-2000)
میر گل خان ناصر (1914–1983)
احسان دانش (1914–1982)
غلام ربانی تابان (1914–)
جانثار اختر (1914–1976)
مجید امجد (1914–1974)
سکندر علی وجد (1914–1983)
یزدانی جالندھری (1915–1990)
وصفی بہرائچی(عبد الرحمن خاں)(1914-1999)
اختر الایمان (1915-1996)
احمد ندیم قاسمی، ندیم (1916–2006)
ضمیر جعفری، ضمیر (1916–1999)
شکیل بدایونی (1916–1970)
شان الحق حقی (1917–2005)
جگن ناتھ آزاد (1918–2004)
کیفی اعظمی (1918–2002)
ضمیر کاشمیری (1919–1994)
خمار بارہ بنکوی، خمار (1919–1999)
مجروح سلطانپوری (1919-2000)
قتیل شفائی، قتیل (1919–2001)

1920ء

اختر انصاری اکبر آبادی (1920-1985)
محمد نعیم اللہ خیالی(1920-1991)
سلام مچھلی شہری (1921-1973)
شکیل احمد ضیا (1921-1999)
سیف الدین سیف (1922–1993)
وزیر آغا ( 1922 -2010)
صوفی ابومحمد واصل بہرائچی(1922-بقید حیات)
ظہور نظر (1923-1981)
امید فاضلی (1923 ۔ 2006 )
ایوب صابر (1923–1989)
راہی احمد راہی (1923)
ضیا جالندھری (1923–2012)
ظہور نظر، (پیدائش: 1923)
ناصر کاظمی، ناصر (1925–1972)
رئیس فروغ (1926–1982)
کیفی اعظمی (1926-2002)
کمال احمد صدیقی (پیدائش-1926)
ظفر حمیدی (پیدائش- 1926)
نریش کمار شاد (1927-1969)
خلیل الرحمن اعظمی (1927-1978)
حمایت علی شاعر، شاعر(پیدائش1926)
شبنم رومانی، شبنم (1928–2009)
ساحر لدھیانوی، ساحر (1921–1980)
ابن انشا، انشا (1927–1978)
بلراج کومل (1928-2013)
راجہ مہدی علی خان (1928-1966)
زیب غوری (1928-1985)
منیر نیازی (1928–2006)
حبیب جالب (1928–1993)
دلاور فگار (1928–1998)
قیصر بارہوی (1928 - 1996)

1930ء

سید فخرالدین بلی (1930–2004)
مصطفیٰ زیدی (1930–1970)
انجم اعظمی (1931-1990)
زاہدہ زیدی ( پیدائش-1931)
کنول ضیائی (1931)
احمد فراز، فراز (1931–2008)
جون ایلیا (1931–2003)
عزت لکھنوی ( 1932 - 1981 )
ظفر اقبال (پیدائش 1932)
سید آل احمد (1932–1999)
محسن بھوپالی (1932–2007)
شکیب جلالی (1932–1966)
شاذ تمكنت (1933-1985)
وحید اختر (1934–1996)
سدرشن فاکر (1934 - 2008)
مرتضے برلاس (پیدائش 1934)
حسن عابد (1935–2009)
محمد سلطان صابرا ونی (1935–2009)
ظفر گورکھپوری، (پیدائش–1935)
آفتاب اقبال شمیم (پیدائش 1936)
شہریار (1936ء - 2012ء)
گلزار (پیدائش 1936)
زہرا نگاہ (پیدائش-1937)
ناصر شہزاد (1937 - 2007)
ظہیرغازی پوری، (پیدائش–1938)
ندا فاضلی (1938)
ماجد صدیقی (پیدائش 1938)
ڈاکٹر نجم الہدی (پیدائش 1938)
مصحف اقبال توصیفی (1939)
عبید اللہ علیم (1939–1997)
ریاست علی تاج (1930–1999)
سردار عالم صدیقی (1930-2010)
غلام غوث غم (1931-2007)

1940ء

کشور ناہید (پیدائش 1940)
کوثر شاہجہان پوری (پیدائش 1941-2008)
ریاض الرحمان ساغر (1941- 2013)
سردار نقوی امروہوی (1941- 2001)
افتخار عارف (پیدائش 1943)
انور شعور (پیدائش 1943)
امجد اسلام امجد (پیدائش 1944)
غلام محمد قاصر، قاصر (1944–1999)
بشیر بدر (پیدائش 1945)
جاوید اختر (پیدائش 1945)
شجاعت علی راہی (پیدائش 1945)
مدحت الاختر (پیدائش 1945)
ظفرصہبائی، (پیدائش–1946)
ابن کلیم احسن نظامی (1946–2017)
محمد اظہار الحق (پیدائش 1948)
تنویر پھول (پیدائش 1948)
فہمیدہ ریاض (پیدائش 1948)
ہلال نقوی ( 1948 )

1950ء

سید عارف معین بلی(پیدائش۔ 1958)
زاہد ابرول (پیدائش 1950)[1]
ظفرمرادآبادی، (پیدائش–1951)
(ذکی طارق (پیدائش۔ 1952)
صغیر ملال (پیدائش 1941-1992)
پروین شاکر (1953–1994)
شفیق خلش (1953–)
زبیر فاروق (پیدائش۔ 1956)
ظفر تابش (پیدائش- 1957)
نور محمد دانش (پیدائش 1958)
وید پرکاش شکلا،سنجر
مسلم سلیم (پیدائش 1950)
٭احمد سہیل (پیدائش 1953)

سبط جعفر زیدی ( 1957 - 2013 )
صفدر ہمدانی ( 1950 )
رشید سندیلوی (پیدائش 1959)
ظفرکمالی، (پیدائش–1959)
خواجہ حنیف تمنّاؔ ( پیدائش 1953۔ سیالکوٹ ) مجموعۂِ کلام۔ (ہوا سے پہلے۔ مطبوعہ 2010 لاہور)
شاکر، سید ابرار حسین شاکر القادری (1959۔۔ اٹک) اردو فارسی میں شعر کہتے ہیں

1960ء

مجیب ظفر انوار حمیدی (24 اگست 1960 کراچی)
آنس معین (لاہور، 29 نومبر 1960 - ملتان، 5 فروری 1986)
ثمینہ راجہ (1961)
حامد یزدانی (1961)
رفیق سندیلوی ( یکم دسمبر 1961)
خالد ملک ساحل ( پیدائش 1961 )۔ مجموعۂِ کلام (فصیلِ شب۔ نومبر۔ 2000)
سید وحید القادری عارف ( پیدائش۔ 1962)
زاہدہ حنا ( پیدائش۔ 1962)
زین رامش ( پیدائش۔ 1963)
نوشی گیلانی ( پیدائش۔ 1964)
نصیرسومرو[2](پیدائش 28 مارچ 1964ء)
ذوالفقارنقوی(پیدائش1965)
سجاد حیدر شاہ (پیدائش1965) مجموعہ کلام (زیر زباں)
حارث خلیق (پیدائش 1966)
سعید خان (1966 پیدائش)
راجہ اسحاق ( پیدائش۔ 1966)
سید ظفر معن بلی (11 فروری 1967)
ظفرعجمی، (پیدائش–1966) مجموعۂِ کلام (سُرمئی دستخط۔ 2012)
رفیع رضآ (1962) مجموعۂِ کلام۔ ستارہ لکیر چھوڑ گیا، مطبوعہ 2010 لاہور
ڈاکٹر محمد سعید فضل کریم بیبانی مجموعۂ کلام (الحمد للہ)-(پیدائش 1962)
امین عاصم (15 جولائی 1968) مجموعۂ کلام :قریۂ لیلیٰ ( اشاعت2009ء)
ظہیرحمتی، (پیدائش–1968)

1970ء

سرمد اختر آبادی (پیدائش 1973)
رحمت عزیز چترالی (پیدائش 1970)، اردو اور کھوار شاعر
سمندر منصوری (پیدائش 1974)
مراد جے پوری (تُہین کانتی ناگ)مراد (پیدائش 1974)
عزیز نبیل (پیدائش 1976)
ضیا المصطفیٰ ترک (پیدائش- 1976)
ضیا ضمیر (پیدائش- 1977)
سبط حیدر زیدی (پیدائش-1977)
بشارت جبین (پیدائش 1977)، اردو اور کھوار شاعر
رحیمہ ناز (پیدائش 1975)، اردو اور کھوار شاعر
عبدالوہاب سخن پیدائش یکم فروری 1970ء رام پور اترپردیش
نادیہ عنبر لودھی (پیدائش )تئیس جولائی اردو 1978

1980ء

حسین محی الدین قادری (پیدائش 1982)
زاہدامروز (پیدائش 1986)

1990ء

جیؔ سی بوسال (پیدائش 1993)
محمدعتیق احمد (پیدائش1995) 
اردو شعرا جن کی تاریخ پیدائش نامعلوم ہے
رفیع رضا
وحید احمد
کیف بھوپالی
وصی شاہ
ولی عاصی
شمیم جے پوری
ظفر گورکھپوری

ماں اور محبت

January 25, 2019

ماں اور محبت


بو علی سینا نے کہا : اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلی مثال میں نے تب دیکھی، جب سیب چار تھے اور ہم پانچ . تب میری ماں نے کہا ، مجھے سیب پسند ہی نہیں .

غیر افسانوی ادب

غیر افسانوی ادب


تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔ تخلیقی عمل میں دنیا کی حقیقتوں، مسائل، تجربات، مشاہدات اور احساسات کو قصہ پن کے بغیر ادب اور فن کے تقاصوں کی تکمیل کے ساتھ پیش کیا جائے تو ایسی نثر غیر افسانوی نثر کہلاتی ہے۔ غیر افسانوی ادب میں قصہ بیان کرنے کی بجائے ادیب، زندگی میں در پیش حقیقی واقعات کو اپنے احساسات، اختیار کردہ مخصوص صنف کی ہیئت کے دائرہ کار میں پیش کرتا ہے ۔

معروف تعریف کے مطابق ادبی سطح پر غیر افسانوی نثر سے ہم ایسی نثر مراد لیتے ہیں جس میں کہانی کا عنصر موجود نہ ہو۔ ہماری جامعات میں اُردو نثر کی تقسیم اسی بنیاد پر کی جاتی ہے۔جن اصناف نثر میں کہانی کا عنصر موجود ہو انھیں ”افسانوی ادب“ کے ذیل میں رکھا جاتا ہے اور دیگر نثری اصناف جن میں کہانی کا عنصر موجود نہیں”اسالیب نثر اردو“ کے تحت پڑھائی جاتی ہیں۔
جامعاتی سطح پر دو خاص تکنیکی حوالوں سے نثر کی تدریس، نظم یا شاعری کی تدریس سے مشکل ہوجاتی ہے۔ سب سے اہم تکنیکی مسئلہ یہ ہے کہ ہم آج بھی نثر کو نظم کی شعریات کے تناظر میں پڑھاتے ہیں۔ اوّلین ضرورت یہ ہے کہ نثر کو نظم کی شعریات سے الگ کرکے پڑھایا جائے اور یہ ذہن میں رکھا جائے کہ اب نثر کی شعریات وضع ہوچکی ہے۔ بات صرف اُسے سمجھنے اور تدریس میں برتنے کی ہے۔


دوسرا تکنیکی مسئلہ یہ ہے کہ غزل یا نظم کی تدریس اُس کے مکمل متن کو سامنے رکھتے ہوئے کی جاسکتی ہے لیکن نثر میں یہ ممکن نہیں۔ آپ ”شہاب نامہ“ یا ”دنیاگول ہے“ یا”آبِ گُم“ وغیرہ کے سارے متن کو سامنے رکھتے ہوئے تدریسی تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے۔ مزید براں یہ کہ غیر افسانوی نثر کی تدریس، افسانوی نثر کی تدریس سے بھی نسبتاً مشکل ہوجاتی ہے۔ یہاں بنیادی مسئلہ دلچسپی کا عنصر ہے۔ غیر افسانوی نثر، کہانی کا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے طلبا کی نظر میں غیر دلچسپ ٹھہرتی ہے۔ افسانوی نثر میں کہانی پن کی وجہ سے جو دل آویزی، رنگا رنگی اور دلچسپی پیدا ہوتی ہے وہ غیر افسانوی نثر میں مفقود ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ قصہ کہانی سے طلبا کسی نہ کسی شکل میں واقف ہوتے ہیں لیکن غیر افسانوی نثری اصناف سے جامعات کے طلبا بھی بالعموم آگاہ نہیںہوتے۔
اصناف کی بات ہوئی تو یہ بتاتا چلوں کہ جامعات میں افسانوی اور غیر افسانوی ہر دو طرح کی نثر کی تدریس مختلف اصناف کی صورت میں کی جاتی ہے۔ اور یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ مختلف اصناف میں نثر اپنی صورت بدلتی ہے بلکہ مضمون جیسی صنف میں موضوع کی مناسبت سے بھی نثر اپنی شکل تبدیل کرتی ہے اور اس حوالے سے کسی نہ کسی حد تک مختلف اصناف کی تدریس کے تقاضے بھی بدلتے ہیں۔ لہٰذا اصناف کی تقسیم سے تدریس کا عمل موثر ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ تقسیم کی جاتی ہے وہ مقصد تدریسی عمل سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً جامعات سے فارغ التحصیل طلبا یہ تو بتا سکتے ہیں کہ مضمون نگاری ایک نثری صنف ہے مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ مضمون کی نثر موضوع کی مناسبت سے اپنی ہئیت بھی بدلتی ہے اور نہ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی ہئیت کیسے بدلتی ہے، پھر یہ کہ مختلف اصناف میں نثر کی ہئیت کیا شکل اختیار کرتی ہے۔

اصناف کی تقسیم اس لیے بھی اہم ہوتی ہے کہ طلباءان نثری اصناف سے اور اُن کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہوسکیں۔ خاص طور پر جامعاتی سطح پر اصناف کی سرسری تعریف یا مبادیات ہی نہیں اُس سے بڑھ کر بھی کچھ جان سکیں مثلاً سفرنامہ نگاری کو لیں، جامعات میں بھی صرف یہ ہی بتایا جاتا ہے کہ جب کوئی ادیب کسی دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے اور اس کے بعد سفر سے متعلق اپنے تاثرات، مشاہدات، حالات اور واقعات نثر میں پیش کرتا ہے تو اُسے سفرنامہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ تعریف تو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطحوں کے طلباءکی تدریس کے دوران بھی کی جاتی ہے۔ وہاں بھی مختلف سفرناموں کے مختصر اقتباسات شامل نصاب ہوتے ہیں اور مدرس یہ بنیادی تعریف بتا کر ہی سبق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر جامعاتی اور ثانوی سطحوں کی تدریس میں کیا فرق ہوا؟ جامعاتی سطح پر تو ضرورت ہے کہ طلبا کو اصناف کی مبادیات سے آگے بڑھایاجائے اور بعض صورتوں میں مبادیات کو چیلنج بھی کیا جائے۔ خیر اس کا مطلب اب یہ بھی نہیں کہ تدریسی عمل میں مبادیات کو یکسر فراموش کردیا جائے۔ مبادیات کی تدریس پہلا قدم ضرور ہے کیوں کہ ہم یہ بھی توقع نہیں کرسکتے کہ جامعات کی سطح پر پہنچنے والے تمام طلبا ہر صنف کی مبادیات سے اچھی طرح واقف ہو ں گے اور وہ اس لیے کہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر مدرس بے شک جزواً جزواً تو بتاتا ہے کہ یہ سفرنامہ ہے، یہ افسانہ ہے یا یہ مضمون ہے مگر کلیتاً وہ نثر کی تمام اقسام کو ایک ہی نام یعنی ”نثری اسباق“ سے جوڑنے پر مجبور ہوتا ہے کیوں کہ وہاں نصاب کی ترتیب و تنظیم ہی ایسی بنیادوں پر کی گئی ہوتی ہے۔ لہٰذا طلباءکا بنیادی تصور یہ ہوتا ہے کہ اُن کے نصاب میں چودہ یا پندرہ نثری اسباق ہیں۔ اُن میںسے کتنے مضامین، کتنے افسانے، کتنے ناول یا ڈراموں کے اقتباسات اور کتنے سفرنامے وغیرہ شامل ہیں، طلبا کی بیشتر تعداد زیادہ دیر تک ان باتوں سے آگاہ نہیں رہتی۔ اس لیے جامعات کی سطح پر اصناف میں تفریق اُن کی مبادیات کی تدریس سے پیدا کرنا ضروری اور پہلا قدم ہے لیکن زور اس بات پر ہے کہ یہ آخری قدم نہیں ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ مزید آگے بڑھنا ضروری ہے۔ مثلاً بات سفرنامہ نگاری کی ہورہی تھی تو اس ذیل میں تدریس کا عمل تعریف اور دو چار سفرناموں کے تذکرہ یا شامل نصاب سفرنامہ کے خلاصہ کردینے پر مکمل نہیں ہوگا۔ بات کو ان حدوں سے آگے لے جانا ہوگا۔ مثلاً سفرنامے کو دو تہذیبوں میں قربت کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ بتایا او ر سمجھایا جاسکتا ہے اور اُّ س کے لیے شامل نصاب سفرنامے سے ہٹ کر دیگر سفرناموں خاص طور پر عالمی کلاسکس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔مثال کے طور پر مارکوپولو کے مشہور زمانہ سفرنامہ کو پیش کیا جاسکتا ہے جس نے اپنے سفرنامے سے مشرق کے بارے میں مغرب کے نقطہ نظر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس سفرنامہ کی وجہ سے اہلِ مغرب کا یہ خیال کہ اہلِ مشرق وحشی اور غیر متمدن ہوتے ہیں، بڑی حد تک تبدیل ہوگیا۔ اور یوں مارکوپولو کا یہ سفرنامہ مغربی اور مشرقی تہذیبوں کو قریب لے آیا۔ یعنی یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اعلیٰ سفرنامہ دو تہذیبوں کے درمیان مخاصمت ، دوری اور تعصبات کو مٹانے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ وہ صرف مہمات کو ہی دلچسپ پیرائے میں نہیں ڈھالتا بلکہ دوتہذیبوں یا ثقافتوں کے درمیان اپنائیت، یگانگت اور انسانی تعلقات کو بھی استوار کرتا ہے۔ لیکن ہر سفرنامہ یہ فریضہ انجام نہیں دیتا۔ بہت سے سفرنامہ نگار دوسری تہذیب کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ طلباکو ان ہر دو طرح کے لکھنے والوں سے واقف کیا جانا ضروری ہے اور اس کی شناخت سفرنامہ نگار کے اسلوب نثر سے ہی کرائی جاسکتی ہے۔ اگر سفرنامہ نگار دو تہذیبوں کو قریب لانے اور محبت پیدا کرنے کا خواہاں ہوگا تو اس کے اسلوب سے اپنائیت اور خلوص جھلکتا دکھائی دے گا اور اگر مصنف کا نقطہ نظر مخاصمانہ اور عنادانہ ہے تو پھر اُس کے اسلوب میں نفرت اور تعصب کا رنگ ظاہر ہوگا۔

مقالے کا آغاز ہم نے اس بات سے کیا تھاکہ جامعات میں شامل نصاب نثری متون کلاس میں نہیں پڑھائے جاسکتے جب کہ نثر کا طریق تدریس بھی ممکن حد تک Text Oriented یعنی متن اساس ہونا چاہیے۔ کلاس میں متن موضوع تو بنتاہے مگر خود اُس کا وجود کلاس سے غائب ہوتا ہے۔ عام رویہ یہ ہے کہ طلباءکو از خود متن پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن طلباءبراہ راست متن پڑھنے کے بجائے اس نثری متن سے متعلق اِدھر اُدھر سے چند تنقیدی مضامین پڑھ کر ایک تاثر قائم کرلینے پر اکتفا کرلیتے ہیں جو کسی بھی طور پر احسن رویہ نہیں۔ ہمیں کسی بھی طور متن کوکلاس میں لانا ہے۔ یہ درست کہ پورا نثری متن کلاس میں نہیں پڑھا جاسکتا لیکن اساتذہ طویل نثری فن پاروں کے ایسے منتخب اقتباسات ضرور کلاس میںپڑھا سکتے ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ بنیادی موقف کی بھرپور وضاحت ہوسکے بلکہ طلبا اعلیٰ نثر کے نمونوں سے براہ راست آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ لطف اندوز بھی ہوسکیں۔ علاوہ ازیں طلبا کے ذمہ ایسی اسائنمنٹس لگائی جاسکتی ہیں جن کی تیاری میں وہ متن کو براہ راست پڑھنے پر مجبور ہوسکیں۔ پھر یہ کہ کلاس میں دوران بحث اس بات کا پابند کیا جاسکتا ہے کہ طلبا دلیل کے لیے متن کوٹ کریں وغیرہ وغیرہ۔

اصل اور خالص غیر افسانوی نثر کی تدریس سرسید احمد خان کی نثر پڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ کیوں کہ مضمون نگاری وہ صنف ادب ہے جو غیر افسانوی نثر کی تعریف پر پوری طرح، پوری اترتی ہے۔ سرسید احمد خان کی مضمون نگاری اس حوالے سے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ وہ پہلا قدم تھا جس سے اردو نثر نے پہلی بار اردو نظم سے خود کو اس قدر ممتاز کیا۔ سرسید نے ہی پہلی بار اردو نثر کو جذبات کے اثر سے نکال کر عقل کے تابع کیا لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سرسید کی نثر میں جذبات کا عمل دخل سرے سے موجود ہی نہیں۔ بے شک اُن کی نثر میں جذبات بھی ہیں اور تخیل بھی لیکن اس نثر کو بنیادی سروکار عقل سے ہے اور یہی عنصر اسے خالص نثر کے ذیل میں لاتاہے۔

یہ بات تو ہم سب پر عیاں ہے کہ سرسید کی نثر مقصدیت کی حامل ہے اور ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر سرسید کے مضامین اسی بنیادی تصور کے تحت ہی پڑھائے جاتے ہیں لیکن سرسید کا کمال محض یہ نہیں کہ انھوں نے مقصدی اور خالص علمی نثر کو اُردو میں رائج کردیا بلکہ کمال یہ ہے کہ ان کے مضامین کی ایک خاص تعداد علمیت اور مقصدیت کے باوجود ادبیت کی حامل ہے۔ جامعاتی سطح پر سرسید کی نثر کی تدریس کا مرکزی نقطہ یہ ہونا چاہیے۔ سرسید نے جو مذہبی اور تعلیمی یا علمی نوعیت کے مضامین لکھے ان کی اہمیت اپنی جگہ پر اور اُن کا ذکر بھی ضرور کیا جانا چاہیے لیکن تدریس کا مرکز سرسید کی وہ نثر ہونا چاہیے جو ادبیت کے ذیل میں آتی ہے۔ ثانوی اور اعلی ثانوی درجوں پر بے شک اس کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور نہ اتناوقت ہوتا ہے کہ ان طلباکو سرسید کی نثر کی ادبیت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے لیکن جامعاتی سطح پر اور خاص طور پرجامعات کے اردو کے شعبہ جات میں اس سے گریز ممکن نہیں۔ اگر سرسید احمد خان کو شعبہ سیاسیات یا شعبہ تاریخ وغیرہ میں پڑھایا جارہا ہو تو پھر سرسید کی ادبیت سے زیادہ علمیت اور مقصدیت زیر بحث آئے گی لیکن اردو ادب میں سرسید کے مضامین علمی حیثیت کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اپنی ادبیت کی وجہ سے ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

اصل میں جامعات کی سطح پر سرسید کی نثر کو پڑھاتے ہوئے بہت سی باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سرسید کی نثر کی بہتر سے بہتر تدریس، اردو کی غیر افسانوی نثر کی مجموعی تدریس میں حد درجہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہاں تین چار اقدامات کی بات خاص طور پر کی جائے گی۔

اس تدریس کا پہلا قدم تو یہی ہے کہ سرسید کی ادبیت کو پوری طرح موضوع بنایا جائے اور ان کی مقصدیت کا راگ یہ سوچ کر ذرا کم الاپا جائے کہ یہ کام پچھلے درجوں میں بہ احسن و خوبی نبھایا جاچکا ہے لہٰذا پہلے پہل سرسید کے وہ مضامین پڑھائے جائیں جن میں ادبیت کا رنگ واضح ہے مثلاً ”گزرا ہوا زمانہ“،” خوشامد“،”امید کی خوشی“،’ سراب حیات“،”بحث و تکرار“ اور ”آدم کی سرگزشت“ وغیرہ۔ لیکن سرسید احمد خان کی ہی نثر سے ہم مضمون کی مختلف اقسام میں تفریق کی تدریس بھی کرسکتے ہیں اور طلباءکو علمی مقالہ، ادبی مضمون اور انشائیہ میں فرق کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک ایسا انتخاب پیش نظر رکھنا ہوگا جس کے مطالعہ سے اور کلاس میں بحث کے بعد طلبا اس بات سے آگاہ ہوسکیں کہ ان تینوں اقسام میں کیا فرق ہے۔ بالعموم ایسا نہیں کیا جاتا اور طلباءکا concept اس معاملے میں صاف نہیں ہوپاتا۔ حالاں کہ انشائیہ کی بحث کو بھی سرسید کی مضمون نگاری کے تذکرہ میں ہی نپٹایا جاسکتا ہے۔ سرسید کے مضامین میں انشائی طرز کی تلاش بھی کوئی مشکل امر نہیں۔ اس ضمن میں”طریقہ تناول طعام“ جیسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اور اردو انشائیہ کے ابتدائی تیور واضح کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ احتیاط لازم ہے کہ استاد اس طرح کی لاحاصل بحثوں میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے کہ اردو کا پہلا نشائیہ نگار کون ہے یا پہلا مضمون نگار کون ہے وغیرہ وغیرہ۔

جامعات میں بعض اوقات سرسید کی نثر کی تدریس کا آغاز ہی یہ بات منوانے سے ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان اردو کے پہلے مضمون نگار ہیں اور ان کے مقابلے میں ماسٹر رام چندر کی اولیت کو چیلنج کرنے میں بہت سا وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ بات علمی مقالہ نگاری اور ادبی مضمون نگاری کی تفریق کے تحت زیادہ موثر انداز سے واضح کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جو طریقہ تدریس اختیار کرنا ہوگا وہ مطالعہ کا تقابلی طریقہ ہے جو عالمی سطح کی تدریس کا موثر اور غالب رجحان ہے۔ عالمی سطح کی تدریس میں تو دیگر زبانوں کے ادب سے تقابل کا بہترین اور سود مند طریقہ رائج ہے مگر ہمارے ہاں اس سے گریز برتا جاتاہے یا اس کا نہایت غیر مفید اور غیر علمی استعمال ہوتا ہے۔ ہم تقابل کے ذریعے کسی ایک کی برتری یا اولیت وفوقیت کو ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اور تقابل کا بنیادی مقصدیعنی فن یا فکر کی تفہیم، وہ نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
بات ہورہی تھی ماسٹر رام چندر اور سرسید احمد خان کی نثر کی اور اُس کے تقابل کی ۔ ہم بجائے اس کے کہ یہ ثابت کرنے پر سارا زور صرف کردیں کہ سرسید احمد خان پہلے مضمون نگار تھے یا ماسٹر رام چندر، ہم دونوں کی نثری تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتا سکتے ہیں کہ ماسٹر رام چندر کی نثر علمی مقالہ نگاری کے ذیل میں آتی ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے علمی اور سائنسی مقالہ نگاری کی نثر کے ذریعے جس سے اردو بالکل ناآشنا تھی، ایک نئی زبان وضع کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ سرسید نے علمی مضامین جو مقالہ نگاری کے ذیل میں آتے ہیں، لکھنے کے باوجود خالص ادبی مضامین بھی لکھے جو مضمون کی صنف میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم علمی مقالہ نگاری اور ادبی مضمون نگاری کی نثر میں فرق کر نے کے قابل ہوجائیں گے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اس تدریس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک دو مقالے ماسٹر رام چندر کے بھی طلباءکو پڑھنے کے لیے دیے جائیں تاکہ وہ خودان میں فرق اور امتیاز کو نشان زد کرسکیں۔

تقابلی مطالعے کا ذکر چلا تو سرسید احمد خان کی نثر پڑھانے کا تیسرا لازمی قدم انگریزی نثر نگاروں سے سرسید کی نثر کا صحت مند تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ سرسید احمد خان کی نثر پڑھاتے ہوئے انگریزی نثر سے اس کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ سرسید کی نثر کا وسیع تناظر میں مطالعہ ہوسکتا ہے بلکہ اردو کے طلباءکنویں کا مینڈک بننے سے بھی بچ سکتے ہیں اور اس طرح ان کی انگریزی نثر کا مطالعہ بھی بہتر بنایاجاسکتا ہے اور اردو طلبا پر یہ اعتراض کہ ان کی انگریزی کم زور ہوتی ہے (جو یقینا ہوتی ہے) بڑی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر جامعات میں سرسید کی نثر کے حوالے سے طوطے کی طرح یہ بار بار رٹایا جاتا ہے کہ سرسید انگلستان گئے اور وہاں اسٹیل اور ایڈیسن کے اخبارات ”ٹیٹلر“ اور ”اسپیکٹیٹر“ سے متاثر ہوئے اور واپس آکر انہوں نے اسی طرز پر ”تہذیب الاخلاق“ کا اجرا کیا۔ حالاں کہ یہ بات بھی طلبا ثانوی درجوں سے مسلسل سنتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ اور جامعات میں بھی بات یہیں سے شروع ہو کر یہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ جب کہ چاہیے تو یہ کہ جب آپ اسٹیل اور ایڈیسن کا اس قدر نام لے رہے ہیں تو طلبا کے سامنے وہ نمونے بھی پیش کریں جن سے سرسید کی مضمون نگاری کے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اساتذہ نے خود بھی صرف اسٹیل اور ایڈیسن کے نام سن رکھے ہوتے ہیں ان کے نمونہ نثر سے واقف نہیں ہوتے لہٰذا اپنے طلبا کو بھی بس یہ دو نام رٹا دینا کافی سمجھتے ہیں۔
اگر ہم تدریس کے عمل کو موثر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس ذیل میں کم سے کم ایک یا دو مضامین خاص طور پر ایڈیسن کے ضرور طلباءکو پڑھنے کے لیے دیں۔ یہاں بھی ایک بات قابل غور ہے کہ صرف suggest نہ کریں طلباءکو مضامینprovide کریں اس سے طلباءکیtext reading کا تناسب بڑھے گا۔ اور یہ مضامین provideکرنے کے بعد انہیں یہ خود دیکھنے دیا جائے کہ کیا واقعی سرسید، ایڈیسن سے متاثر دکھائی دیتے ہیں؟ انھوں نے کہاں کہاں ایڈیسن کی پیروی کی اور کہاں کہاں سے وہ انحراف کرجاتے ہیں؟ مثلاً سرسید نے عام فہم زبان اور اخلاقی درس کے سلسلے میں تو ایڈیسن کی پیروی کی مگر ایڈیسن نے درس اخلاق کے لیے جو مزاج پر مبنی طرز اپنایا اور معاشرتی بداخلاقیوں پر ہنسنے ہنسانے کا جو اسلوب اختیار کیا وہ سرسید احمد خان کے ہاں شاذونادر ہی نظر آتا ہے۔ سرسید کا اسلوب زیادہ ترسنجیدہ اور مفکرانہ ہے۔ اور اس طرح کے اسلوب کی انگریزی مضمون نگاری میں مثال ڈاکٹر جونسن کی ہے لیکن ہمارے ہاں ڈاکٹر جونسن کا نام بالعموم نہیںلیا جاتا۔ اگر طلباءکو ڈاکٹر جونسن سے بھی متعارف کرایا جائے اور ایک آدھ تحریر اس کی بھی پڑھنے کو دی جائے تو طلباءبخوبی جان لیں گے کہ سرسید اور ڈاکٹر جونسن نے نثر کے تبلیغی رنگ کو کس قدر خوبی سے نبھایا ہے کہ وہ بلا تامل قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ طلباءیہ بھی جان لیں گے کہ بڑے بڑے لاطینی الفاظ استعمال کرنے سے ڈاکٹر جونسن کی نثر سرسید کی بہ نسبت زیادہ ثقیل ہوجاتی ہے جب کہ سرسید کی نثر اس حوالے سے ہلکی پھلکی رہتی ہے کیوں کہ ان کا مقصد ہی اردو نثر کو عربی اور فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ سے محفوظ رکھنا تھا۔

پھر ایک نام فرانسِس بیکن کا ہے جس نے صحیح معنوں میں نثر کا یہ بنیادی اصول قائم کیا کہ نثر کو عقل کے قابو میں ہونا چاہیے اور جذباتی اور تصوراتی تاثرات کو ضرورت سے زیادہ نہ برتنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو سرسید کی نثر کا بھی یہی بنیادی تصور ہے۔ اس لیے اگر طلباءکو فرانسس بیکن کے ”الیسیز“ کا تعارف اور بنیادی موضوع بتایا جائے اور ساتھ اس کا ایک مضمون Of Studies خاص طور پر طلباءکو پڑھنے کے لیے دے دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
تقابل کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا اور زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرسید عام طور پر جذبات سے دور ہی رہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود انھوںن ے جذبات کو اکثر جگہوں پر مناسب جگہ بھی دی ہے۔ لیکن ایڈیسن، جونسن اور فرانسس بیکن کی تحریروں کا جذبات سے واسطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب ہم انگریزی ادب کی تاریخ میں ذرا آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا نثر نگار ملتا ہے کہ جس کے ہاں نثر میں جذباتی رنگ کو آمیز کرنے کا قدرتی منکہ موجود ہے۔ یہ نثر نگار چارلس لیمب ہے جس نے مضمون نگاری کی صنف کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ اس کےEssays of Elia مضمون نگاری کا شاہکار کہے جاسکتے ہیں۔اُس نے تو خیر مضمون کی صنف کی ہر صفت کو بڑے کمال سے برتا ہے۔ ہمیں یہاں چارلس لیمب اور سرسید احمد خان کی مضمون نگاری کا مکمل تقابل مقصود نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ چارلس لیمب جس طرح مضمون میں جذبات کی رنگ آمیزی کرتاہے وہ کیسی ہے اور سرسید احمد خان کے ہاں وہ کس شکل میں ہے۔ سرسید احمد خان کا مضمون ’امید کی خوشی‘ اردو نثر میں اس حوالے سے اہم ہے اور جامعات کے نصاب میں بالعموم شامل بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف چارلس لیمب کا مضمونDream Children اس حوالے سے دنیائے نثر کا اہم ترین مضمون ہے اس لیے اگر طلباءکو یہ مضمون بھی پڑھنے کے لیے مہیا کیاجائے تو انہیں معلوم ہوسکے گاکہ سرسید کے ہاں کیسے کیسے اور کہاں کہاں کے رنگ موجود ہیں۔

یہاں تک ایک بات ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ جامعاتی سطح پر اردو کی تدریس کے دوران ہمیں طلباءکو عالمی سطح کی اہم زبانوں کے ادب عالیہ سے ضرور واقف کرانا چاہیے۔ اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ عالمی ادب کے اہم نام اور کام ہمارے لیے یکسر اجنبی نہ رہیں۔ اردو نثر نگاری کی تدریس میں بھی ہمارا یہ مطمح نظر ضرور ہونا چاہیے۔اس لیے اگر سرسیدکی نثر کی تدریس میں درج بالا تقابلی طریق برتا جائے تو دنیائے ادب کے اور خاص طور پر انگریزی ادب کے بڑے بڑے نثر نگاروں سے طلبا کی واقفیت لازم ہے۔

بہرحال سرسید کی نثر کی تدریس کا یہ بھی آخری قدم نہیں ہے۔ سرسید کی نثر کو تنقیدی نقطہ نظر سے بھی کلاس میں پیش کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بھی وہ عمل ہے جو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجوں کی تدریس میں نہ تو ممکن ہوتا ہے اور نہ ضروری۔ لیکن جامعاتی سطح پر یہ تدریس کا لازمہ ہونا چاہیے تاکہ اس سطح کے طلباءکے تنقیدی شعور کی بہتر پرداخت ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے کلاس میں اس طرح کے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً سرسید کے مضمون ”گزرا ہوا زمانہ“ یا ”بحث و تکرار“وغیرہ میں آخر میں چند ناصحانہ فقروں نے مضمون کی صحت اور تاثر پر کیا اثر چھوڑا ہے؟ کیا وہ واقعی ضروری تھے یا صرف ایک ناصح مضمون نگار کی تشفی کا باعث ہیں؟ پھر یہ کہ سرسید کی نثر میں بعض جگہوں پر کیا ترکیبوں کا بھدا پن اور لفظوں کا عامیانہ پن محسوس نہیں ہوتا؟ کیا سرسید انگریزی الفاظ کا بغیر ضرورت کے جا بجا استعمال نہیں کرتے جس سے ان کی نثر کا لطف اور کیف متاثر ہوتا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ چوں کہ طلبا نہ صرف یہ کہ سرسید کی بیشتر تحریریں پڑھ چکے ہوں گے بلکہ انگریزی نثر کے شاہکاروں سے بھی آگاہ ہوچکے ہوں گے اس لیے وہ اس طرح کے سوالات پر بہتر اظہار خیال کرسکیںگے اور اس طرح ان کی تنقیدی تربیت کا سامان ہوسکےگا۔
اگر چہ مختصر وقت میں غیر افسانوی نثرکی تدریس کے لیے اس مقالے میں سرسید کی نثر کو ہی زیادہ بنیاد بنایا گیا ہے لیکن میں چند مزید لیکن انتہائی مختصر باتیں غالب کی نثر اور خاکہ نگاری کی تدریس کے حوالے سے بھی کرنا چاہوں گا۔
غالب کے خطوط اور اُن کی نثر بلاشبہ بے مثال ہے۔ بے شک انھوں نے اردو نثر میں سلاست، سادگی، مکالمہ نگاری، ظرافت، طنز اور جزئیات نگاری کو پہلی بار رواج دیا اور ادبی نثر کو زندہ و جاوید کردیا۔ ان سب کی تدریس اپنی جگہ پر لیکن جامعاتی سطح پر تدریس کے دوران غالب کی نثر کا وژن مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ غالب کی نثر کو مکتوب نگاری کے فن سے نکال کر اگر کچھ دیر کے لیے ناول کے تحت بھی دیکھا جائے تو دلچسپ بحث اٹھائی جاسکتی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا کہ جامعاتی سطح پر اصناف کی مبادیات پڑھا دینا ہی کافی نہیں بعض اوقات اصناف اور ان کی مبادیات کو چیلنج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ غالب کے خطوط پڑھاتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ انہیں مکتوب سے بڑھ کر ناول کی حیثیت سے بھی دیکھا اور پڑھا جائے۔ یہاں میں ایک دو اور مثالیں انگریزی ادب سے دینا چاہوں گا۔ اٹھارویں صدی میں انگریزی ادب میں خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوئے جنہوں نے مکتوب نگاری کی نئی صنف ادب کا اضافہ کیا ان میں ایک مجموعہ ہو زلیس والنول کے خطوط کا بھی تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ ان خطوط میں اُس زمانے کی زندگی کے حالات کسی تاریخ یا ناول سے بہتر انداز میں پیش ہوئے ہیں۔ اگر ہوزیس والنول کے خطوط کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے تو غالب کے خطوط کو کیوں نہیں؟ یہ بھی خاطر نشان رہے کہ والیول کے عہد میں ناول کی صنف وجود میں آچکی تھی جبکہ غالب جس وقت خطوط لکھ رہے تھے اس وقت اردو میں ناول ابھی منظر عام پر نہیںآیا تھا۔ لہٰذا ہمار ے لیے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس عہد کی تہذیبی اور سیاسی تاریخ اور معاشرت ہمیں غالب کے خطوط ہی میں نظر آسکتی ہے۔ ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ سیموئل رچرڈ سن کی جس کتاب کے لیے پہلے پہل ناول کالفظ استعمال ہوا یعنیPamela or Virtue Rewarded وہ بھی خطوط کا ہی مجموعہ تھی۔

خاکہ نگاری کے ذیل میں ایک بات نہایت اہم ہے۔ ہماری جامعات کے نصاب میں بالعموم کسی ایک خاکہ نگا ر کے ہی خاکوں کا مجموعہ یاانتخاب شامل ہوتا ہے جو میرے خیال سے اس لیے درست نہیں کہ اس طرح اردو خاکہ نگاری کے مختلف اور متنوع اسالیب نثر سے طلباءواقف نہیں ہوپاتے۔ ضروری ہے کہ نصاب میں اردو کے بہترین خاکوں کا ایک انتخاب شامل کیا جائے۔ مثلاً اس ضمن میں ڈاکٹرانور احمد کی کتاب ’اردو کے دس یادگار خاکے‘ یا مبین مرزا کے مرتبہ خاکے ’اردو کے بہترین شخصی خاکے‘ کی جلد اول شامل کی جاسکتی ہے اس طرح طلباءبیک وقت مختلف نثر نگاروں کے اسلوب نگارش سے آگاہ ہوسکیں گے۔ پھر یہ کہ اسی صورت طلباءکو پرانی اور نئی خاکہ نگاری میں تفریق کی تدریس، جو کہ بہت ضروری ہے،موثر انداز سے کی جاسکتی ہے۔عصمت چغتائی کے ”دوزخی“ اور منٹو کے خاکوں کے ذریعے جدید اردو خاکے کے اطوار واضح کیے جاسکتے ہیں۔ اور اسی صورت انہیں شخصیت نگاری اور خاکہ نگاری کا باریک فرق بھی سمجھا یا جاسکتا ہے۔

طنز و مزاح کے ذیل میں بھی نصاب میں صرف شوکت تھانوی یا پطرس بخاری کے ہی مضامین یا مشتاق احمد یوسفی کی ’آب گم‘ شامل کرنے کی بجائے طنز و مزاح پر مبنی مختلف نثر نگاروں کی تحریروں کا انتخاب نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ طنز و مزاح کے بھی مختلف اسالیب نثر سے طلبا کی واقفیت ہوسکے۔
جامعات میں تدریس کے دوران اصناف کی تاریخ اور اس کے پس منظر پر عام طور پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی زور صرف کیا جاتا ہے اور اس بات پر توجہ کم یا بالکل نہیں دی جاتی کہ زیرِ مطالعہ صنف برتنے کا طریقہ کیا ہے اور یہ کیوں اور کیسے برتی جاتی ہے؟ اس کی ضرورت غیر افسانوی نثر کی تدریس میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اساتذہ کو اس ضمن میں توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے اور اس کے لیے ایک دو عملی کام کروانے چاہئیں۔ مثلاً ایک تو ہر طالب علم کو ایک ایک نثری فن پارہ تنقیدی رائے کے لیے دیا جائے اور اسے تحریری رائے دینے کا پابند بنایا جائے اس کے علاوہ طلباءکو کم سے کم ایک ایک نثری فن پارہ تخلیق کرنے کی تحریک بھی دی جائے اس سے تدریس کے عمل کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

آخر میں ایک بات یہ کہ اساتذہ کو کلاس میں پڑھاتے ہوئے یہ احساس برابر رہنا چاہیے کہ وہ نثر بول رہے ہیں اور طلبا میں بھی یہ احساس اجاگر کرانا چاہیے کہ وہ نثر سن اور بول رہے ہیں تاکہ انہیںمشہور فرانسیسی ڈرامہ نگار مولیئر کے کردار کی طرح اس بات کا احساس چالیس برس بعد نہ ہو کہ وہ جو کچھ بولتے اور سنتے رہے ہیں وہ ہی نثر ہے۔

اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات

January 20, 2019
jmi

اردو زبان کی ابتدا کے متعلق نظریات



اردو کی ابتدا و آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتدا کی بنیاد برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدلال یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہلائی۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا کا سراغ قدیم آریائوں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا ذرا مشکل ہے۔ اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتدا مسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔

دکن میں اردو

نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ طلوع اسلام سے بہت پہلے عرب ہندوستان میں مالابار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات مقامی لوگوں سے یقیناً ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معاملات میں یقیناً انہیں زبان کا مسئلہ درپیش آتا ہوگا۔ اسی میل میلاپ اور اختلاط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک وسیلۂ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابلِ قبول نہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین اس نظریے کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں :

عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اس لیے دکن میں اردو کی ابتداء کا سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں اردو شمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے مسلمان سلاطین کی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کے ارتقاء سے ہے۔ ابتداء سے نہیں۔
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے، یہاں سے کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے۔ طلوعِ اسلام کے ساتھ یہ عرب تاجر، مالِ تجارت کی فروخت اور اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقیناً پیدا ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود ناگزیر ہو کر یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ ہو سکا جہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقلاب کی بنیاد نہ بن سکے، البتہ فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔

۔


سندھ میں اردو

یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختلاط و ارتباط کے نتیجے میں جوزبان وجود پزیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں :

”مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کو ہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس کا ہیولیٰ اسی وادی سندھ میں تیار ہوا ہوگا۔ “
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔ مقامی لوگوں کی زبان، لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بلاو اسطہ طور پر متاثر ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل“ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس دعوے ٰ کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین:

”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کے خاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہوا تو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے۔ اس عرصہ میں کچھ عربی اور فارسی الفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کی ابتدا کا قیاس شاید درست نہ ہوگا۔ “
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی، فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہو گئی۔ اس آمیز ش کا ہیولیٰ قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔


پنجاب میں اردو

حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی ابتدا پنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتدا اس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیام سے تقریباً دو سو سال تک یہ فاتحین یہاں قیام پزیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پزیر ہوا اس نظریے کی صداقت کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس علاقے کے بہت سے شعرا کا کلام پیش کیا ہے۔ جس میں پنجابی،فارسی اور مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :

”سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ 1000ء سے 1026ء تک جاری رہا اور پنجاب و سندھ کے علاوہ قنوج، گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر تک فاتحین کے قدم پہنچے لیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ علاقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیا البتہ 1025ء میں لاہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو میں شامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمان کثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے، علما اور صوفیا نے یہاں آکر رشد و ہدایت کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مقامی باشندے گروہ درگروہ اسلام قبول کرنے لگے اس سماجی انقلاب کا اثر یہاں کی زبان پر پڑا۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہاں کی زبان کو بول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان، عربی، فارسی اور ترکی کے ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔ “
مسلمان تقریباً پونے دو سو سال تک پنجاب، جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔ 1193ء میں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہو گئے۔ اب لاہور کی بجائے دہلی کو دار الخلافہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تو لازماً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی، ان کے ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی۔

تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے علاوہ پرفیسر محمود خان شیرانی، اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں : ”اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میں اسماء و افعال کے خاتمے میں الف آتا ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہے یہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم اجزاء بلکہ ان کے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر و تانیث کے قواعد، افعال مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو میں ساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔ “

مختصراً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی بنا پر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدلال کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔

الغرض اگر ہم پروفیسر شیرانی کی تحقیق پر تنقیدی نظر ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ واقعی اردو اپنی ہیئت ساخت اور صرف و نحو کی خصوصیات کی بنا پر پنجابی سے قریب تر ہے۔ مثلاً

1۔ اردو اور پنجابی میں تذکیر و تانیث کے قواعد یکساں ہیں۔ مثلاً اکثر الفاظ جو الف پر ختم ہوں اگر ان کی تانیث کرنی مقصود ہو تو ’’الف ‘‘کو ’’ ی‘‘ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً بکرا، بکری۔ گھوڑا، گھوڑی۔ کالا، کالی وغیرہ

2۔ مصدر کا قاعدہ بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ یعنی فعل امر کے آخر میں ’’نا‘‘ کے اضافے سے مصدر بنایا جاتاہے۔

3۔ فعل تذکیر و تانیث دونوں میں اپنے فاعل کی حالت کے مطابق آتا ہے۔ مثلاً گھوڑی آئی (اردو) کوڑی آئی (پنجابی) لڑکا آیا (اردو) منڈا آیا( پنجابی)

4۔ فعل لازم سے فعل متعدی بنانے کے قاعدے بھی دونوں زبانوں میں یکساں ہیں جیسے سیکھنا سے سکھانا (اردو)، سکھنا سے سکھانا (پنجابی) بیٹھنا سے بٹھانا (اردو) اور بہنا سے بہانا (پنجابی) اس کے علاوہ ماضی مطلق، ماضی احتمالی شکیّہ، مضارع، مستقبل کے اصول، مضارع، امر کے قاعدے، معروف و مجہول، دعائیہ، ندائیہ کے اصول و ضوابط دونوں زبانوں میں یکساں ہیں۔

یاد رہے کہ ’’پنجاب میں اردو‘‘ کی اشاعت سے قبل مولانا محمد حسین آزاد کے پیش کردہ نظریے کو ہی قبولیت عام حاصل تھی مگر حافظ صاحب کی کتاب نے تحقیق کے تمام تر دروازے پنجاب کی سرزمین کی طرف وا کر دیے۔ خود حضرت علامہ محمد اقبال کو جب نصیر الدین ہاشمی نے اپنی تصنیف ’’دکن میں اردو‘‘ پیش کی تو انہوں نے کہا: ’’ غالباً پنجاب میں بھی کچھ پرانا مسالا موجود ہے۔ اگر اس کے جمع کرنے میں کسی کو کامیابی ہو گی تو مورخ اردو کے لیے نئے سوالات پیدا ہوں گے ‘‘۔

پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختلاط کا ذکر کیا ہے اور ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتداً اختیار کی وہ وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر مشرقی پنجاب اور یو پی کے مغربی اضلاع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختلاف نہیں اور یہ فرق آٹھ، نوسو سال پہلے تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریباً ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ محمود شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔

حافظ محمود شیرانی کی تالیف ”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی مولانا محمد حسین آزاد کے نظریے کی تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتدا کے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ ذرا مشکوک سا ہو گیا۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتدا کے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے سکے۔ یوں حافظ محمودشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔

دہلی میں اردو

اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت اردو زبان کی نشو و نما اور ارتقا میں تو مانی جا سکتی ہے ابتدا اور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان علاقوں کو اردو کے ارتقا میں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:

”یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتدا کا مسلمانوں سے یا سرزمین ہند میں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھ اور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اس زبان کا آغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔ “
ان نظریات کے علاوہ میر امن، سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔


مجموعی جائزہ

اردو کی ابتدا کے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین الاقوامی زبان ظہور پزیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے میں وہ بولتے رہے ہیں۔ یوں محققین کی ان آراء کے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ 1000ء کے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (موجودہ مغربی پاکستان) کے علاقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسلامی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔

نیا سال ’’کیوں‘‘ مبارک ہو ؟

January 01, 2019
jmi

نیا سال ’’کیوں‘‘ مبارک ہو ؟


دسمبر کا مہینہ غم درد اور مایوسی کا مہینہ سمجھا جاتا ہے خصوصاً پاکستان کے حوالے سے، کیونکہ ظلم وستم اور دہشت گردی کے بڑے واقعات اسی مہینے میں پیش آئے لیکن دوسری طرف یہی دسمبر نئے سال کی صبح کے لیے آخری رات کی مانند سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دسمبر شروع ہوتے ہی نوجوان حرکت میں آتے ہیں اور نئے سال کی مبارکباد کاسلسلہ شروع ہوتا ہے۔یہ نظارے موجودہ دور کے ایک معروف ایجاد فیس بک پر روز دیکھے جاسکتے ہیں۔ہمارے نوجوان اس سلسلے میں بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں اور وہ اس روایت کو فرض سمجھ کر ایسے مناتے ہیں جیسے عید،شادی یا کوئی بڑی کامیابی کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال کی آمد پر خوشی ہم کیوں مناتے ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک مغربی روایت ہے جو تہوار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ مجھے مغرب سے کوئی نفرت نہیں مگر جب ہم اپنا موازنہ ان کے ساتھ کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہم بیوقوف ہیں جو اُن کے ہر عمل کی تقلید کرتے ہیں اورپھر سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔کیونکہ مغربی اقوام موجودہ دور کے ترقیافتہ اقوام کہلاتی ہیں اور وہ تمام مسائل جن کی وجہ سے ہم مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں وہ حل کر چکی ہیں۔اور جب وہ مشکلات اور تکالیف کا شکار ہیں نہیں تو وہ کیوں نہ خوشیاں منائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ہر مہینے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈا جاتا ہے کہ سیرو تفریح اور سکون و راحت کا موقع ہاتھ آئے.اب ہم ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالتے ہیں کہ ہم کب خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ہمارے لیے سب بڑا خوشی کاموقع عیدین پر ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عید کے روز ہم یہ برملا سنتے رہے ہیں کہ یار عید کا مزہ نہیں اور اکثر لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یار آج کل کتنی سہولتیں ہیں، اور تمام نعمتیں موجود ہیں مگر دل پریشان اور بے سکون ہوتا ہے۔ امیر و غریب سب پریشانی اور ٹنشن کا شکار ہیں۔هم نے گزشتہ درجنوں سال دہشت گردی ،قتل وغارت گری اور اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف جہاد کرنے میں گزارے تو ہم نئے سال کی خوشیاں کیوں منائیں اور کیسے منائیں؟ اور پھر دسمبرجو سال کاآخری مہینہ ہوتا ہے میں آرمی پبلک سکول کا بد ترین واقعہ پیش آیا تھا جس میں بچوں پر ہونے والے ظلم اور بربریت سے فرعون ، نمرود،ہلاکو خان اور ہٹلر جیسے بدنام ظالموں کی روحیں بھی کانپ چکی ہونگیں۔ اور ہم پھر بھی نئے سال کے لیے جھوٹی خوشیاں مناکر مبارکباد دیتے ہیں۔دسمبر ہی کیا ہم نے گزشتہ پندرہ سال مسلسل آگ اور خون میں رہ کر لاشیں اٹھانے میں گزارے مگر ہمارے نوجوان ابھی سے مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ نئے سال کی خوشیاں مبارک ہو حالانکہ ابھی نیا سال مشکوک اور وہم وگمان کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہے کیونکہ’’ امن‘‘ پسند امریکہ ابھی تک افغانستان میں موجود ہے اور جب تک امریکہ کسی ملک میں تشریف فرما ہوتا ہے وہاں امن و امان اور سکون کی زندگی ایک خواب ہی ہوتا ہے جس کا ثبوت عراق،شام، افغانستان، یمن بلکہ تمام اسلامی ممالک میں سب کے سامنے ہے۔دوسری طرف بھارت بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں جو امریکہ بہادرکے ایما پر افغانستان میں اپنی موجودگی ضروری سمجھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے چاروں جانب خوف اور دہشت گردی کے مہیب سائے نظر آرہے ہیں مگر ہمارے نوجوان اب بھی کہتے ہیں کہ نیا سال مبارک ہو بلکہ وہ تو اس سے بھی آگے جاکر کہتے ہیں کہ نئے ساک کی خوشیاں مبارک ہوں ارے میرے ناداں دوستو! کونسی خوشیاں اور کہاں کی خوشیاں ؟ ہم تو ابھی تک جواں مرگ جوانوں کے جنازوں سے فارغ نہیں ہوئےهمارے کانوں میں تو یتیموں،بیواؤں اور بے سہارا رہنے والے والدین کی آہ فغان ابھی تک گونج رہی ہیں۔تو ایسے میں نئے سال کے لیے ہم کیوں خوش ہوں۔ایک اہم بات یہ کہ مغربی ممالک اگر خوشیاں منائیں تو وہ حق بجانب ہیں کیوں وہ تمام مسائل جن کے لیے روز روز یہاں پر دھرنے،جلسے جلوس اور مظاہرے کیے جاتے ہیں وہاں پر حل کیے جاچکے ہیں۔کرپشن،جھوٹ،منافقت اور اپنے ہی عوام کو بیوقوف بنانا ہمارے سیاستدانوں کا کمال ہے جن پر وہ فخر بھی کرتے ہیں کیونکہ اُن کو پتہ ہے کہ یہ عوام ویسے ہی بوقوف رہیں گے اور ہمیں ووٹ دیتے رہیں گے یہی وجہ ہے کہ ہماری اشرافیہ بھی مغرب کی تقلید کرتی ہیں اور نئے سال کی خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ بے حسی میں درجہ اول پر ہیں۔گزشتہ سال کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو کوئی مہینہ ایسا نہیں ہوگا جس میں کوئی المناک واقعہ نہیں ہوا ہو۔بلوچستان میں کتنے دردناک واقعات پیش آئے جن میں شیعہ،سنی اور عیسائی سب کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد اور جنازوں تک کو نہیں بخشا گیا۔اور سال 2017 کے آخری دن جلال آباد میں ایک جنازہ کو نشانہ بنایا گیاجس میں اٹھارہ افراد شہید کر دیے گئے۔اسی طرح مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور سکولوں میں دہشت گردی کی گئی جن سے انسانیت لرز اٹھی۔تو ایسے میں ہم کس منُہ سے بولیں کہ نئے سال کی خوشی مبارک ہو۔ بد قسمتی سے نہیں بلکہ بد حکمتی سے تمام عالم اسلام شدید دہشتگردی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔جبکہ الزام بھی مسلمانوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔امریکہ بہادر کا دوہرا رویہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سبب ہے جس کا ایک ثبوت بیت المقدس کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنا ہے۔دوسرا ثبوت افغانستان میں لاکھوں فوجوں اور یورپی سپورٹ کے باوجود امن قائم نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن قائم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ امن قائم ہونے سے امریکہ کو واپس جانا ہوگا جبکہ وہ واپس نہیں جاناچاہتا۔اور واپس نہ جانے کے پیچھے کئی اغراض اور مقاصد ہیں۔افغانستان اور اس سے ملحقہ پختون بیلٹ گزشتہ تیس 30سالوں سے جنگ اور آگ و خون کی لپیٹ میں ہے جس سے اب تک لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔تو ایسے میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نئے سال کی خوشیاں مبارک ہوں۔ہمارے نوجوان نئے سال کی رات شہروں بازاروں اور خصوصاً سمندر کے ساحل پر نکل پڑے جہاں انہوں نے ناچ گانوں اور بد مستی کا مظاہرہ کیا اسی دوران ہمارا میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔31دسمبر کی رات آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور جاپان سے آتش بازی اور رنگارنگ پروگرام پیش کرتا رہا اور یہ سلسلہ یکم جنوری تک جاری رہا کیونکہ یورپی جشن اور رنگا رنگی بھی دکھانا ضروری تھا۔میرا مقصد یہ نہیں کہ نئے سال کی مبارکباد نہیں دینا چاہیے کیونکہ مبارباد دینے کا مقصد دعا دینا ہے کہ نیا سال بابرکت ہو مگر اس میں خوشیاں منانا اور ڈانس مستی کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ سال گزرنے سے ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو جائے تو خوش کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔

نئے سال پر شاعری

January 01, 2019

نئے سال پر شاعری

نئے سال کی آمد کو لوگ ایک جشن کے طور پر مناتے ہیں ۔ یہ ایک سال کو الوداع کہہ کر دوسرے سال کو استقبال کرنے کا موقع ہوتا ہے ۔ یہ زندگی میں وہ واحد لمحات ہوتے ہیں جب انسان زندگی کے گزرنے اور فنا کی طرف بڑھنے کے احساس کو بھول کر ایک لمحاتی سرشاری میں محو ہوجاتا ہے۔ نئے سال کی آمد سے وابستہ اور بھی کئی فکری اور جذباتی رویے ہیں ، ہمارا یہ انتخاب ان سب پر مشتمل ہے ۔

آج  اک  اور  برس  بیت  گیا  اس  کے  بغیر 
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے 

احمد فراز

اب کے بار مل کے یوں سال نو منائیں گے 
رنجشیں  بھلا  کر ہم   نفرتیں  مٹائیں  گے 

نامعلوم

اے جاتے برس تجھ کو سونپا خدا کو 
مبارک  مبارک  نیا سال  سب  کو
 
محمد اسد اللہ

چہرے سے جھاڑ پچھلے برس کی کدورتیں 

دیوار  سے      پرانا      کلینڈر  اتار   دے 

ظفر اقبال

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض 

اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے 


مرزا غالب



 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes