سفر نامہ کیسے لکھتے ہیں ؟



سفرنامہ


سفر نامہ، سفر کے تاثرات، حالات اور کوائف پر مشتمل ہوتا ہے۔ فنی طور پر سفرنامہ بيانيہ ہے جو سفرنامہ نگار سفر کے دوران يا اختتام سفر پر اپنے مشاہدات، کيفيات اور اکثر اوقات قلبی واردات سے مرتب کرتا ہے- اردو کے کچھ مشہور سفر نامے یہ ہیں۔ سات سمندر پار، لبیک (سفر نامہ)، نظرنامہ، کسریٰ کی ہوائیں ہیں ۔

سفر نامہ کیسے لکھتے ہیں ؟ / آئیں سفر نامہ لکھیں! 


 سفرنامہ لکھنے کی 8 شرطیں۔۔

تحریر کی ایک قسم ”سفرنامہ“ لکھنا بھی ہے۔ سفرنامہ نگاری کا فن قدرے آسان ہے۔ اس میں کوئی عرق ریزتحقیق نہیں کرنی پڑتی، اور نہ ہی کوئی لمبے چوڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ زیادہ معلومات کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔ کلام کو مقفٰیٰ مسجع بھی نہیں کیا جاتا۔ سفرنامے میں بس کرنا یہ ہوتا ہے کہ مسافر جس راستے سے گزرا ہوتا ہے، اس کے حال احوال اور رُوداد کو عام فہم انداز میں بیان کرتا ہوا چلا جاتا ہے۔
سفرنامے کی کئی قسمیں ہیں۔ وقت اور حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ سفرناموں کے انداز اور اسٹائل بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم سفرناموں اور جدید دور کے لکھے گئے سفرناموں میں بہت فرق ہے۔ پہلے سفرنامے تاریخی اور جغرافیائی حیثیت سے لکھے جاتے تھے۔ تاریخ، معلومات، جغرافیہ اور حقائق کو ترجیح دی جاتی تھی۔ آج کل ایسا نہیں ہے۔ آج کے دور میں ہلکے پھلکے اور لائٹ سفرناموں کو زیادہ مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ پاکستان میں جن ادیبوں کے سفرناموں کو شہرت ملی ان میں کرنل اشفاق، مستنصر حسین تارڑ، کرنل محمد خان اور عطاءالحق قاسمی کے سفرنامے ہیں۔ سفرنامے کی اےک قسم اےسی بھی ہے جس میں دونوں چیزوں کو یکجا کرکے لکھا جاتا ہے۔ اس میں تاریخ، جغرافیہ اور معلومات بھی ہوتی ہیں اور ادب، تناظر، مکالمے، منظر نگاری، کردار سازی.... وغیرہ بھی ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کو آپس میں ایسا گوندھ کر پیش کیا جاتا ہے کہ قاری کو بیک وقت کئی چیزیں مل رہی ہوتی ہیں۔ سفرنامہ نگار سفر ہی سفر میں پڑھنے والے کے ذہن میں ایک تاریخ بھی نقش کردیتا ہے۔ وہ قاری کو حال میں ماضی کے جھروکوں سے گزارتا ہے۔ 
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ سفرنامہ نگار بننے کے لیے کن کن چیزوں کا آنا ضروری ہوتا ہے؟ ایک کامیاب سفرنامہ نویس کیسے بنا جاسکتا ہے؟ وہ کون سے گُر اور فارمولے ہیں جس پر عمل پیرا ہوکر سفرنامہ لکھا جاسکتا ہے؟ سفرنامہ لکھنے کی ابتدا کیسے کرنی چاہیے؟ کیا سفرنامہ لکھنے کے لیے سفر کرنا بھی ناگزیر ہے؟ کیا ٹیبل اسٹوریوں کی طرح سفرنامہ بھی لکھا جاسکتا ہے؟ آج کل زیادہ تر سفرنامے کیسے لکھے جارہے ہیں؟ یہ اور اس جیسے بیسیوں تشنہ طلب سوالوں کا جواب حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں۔
سفرنامہ لکھنے کی پہلی شرط تو یہ ہے کہ سفرنامہ نگار نے واقعتا سفر بھی کیا ہوا ہو۔ ٹیبل اسٹوری کی طرح ٹیبل سفرنامہ نہیں لکھا جاسکتا۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: ”لَی ±سَ ال ±خَب ±رُ کَال ±مَعَایَنَةِ“.... یعنی ”مشاہدہ خبر کے برابر نہیں ہوسکتا۔“ چند سال پہلے جب خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں زلزلہ آیا تو میرے اخبار کے ایڈیٹر نے کہا آپ متاثرہ علاقوں کا وزٹ کریں اور پھر واپس آکر اس موضوع پر مضمون لکھیں۔ 
میں نے کہا: ”میڈیا پر سب کچھ آچکا ہے۔ میرے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل آپ کو اس موضوع پر مضمون مل جائے گا۔“ ایڈیٹر صاحب نے حکماً کہا: ”نہیں! آپ کو لازمی جانا ہے۔ واپس آکر آپ مضمون لکھیں یا نہ لکھیں، لیکن ایک مرتبہ وزٹ ضرور کر آئیں۔“ 
چنانچہ تعمیلِ حکم میں متاثرہ علاقوں کا 5 روزہ دورہ کیا۔ وزٹ کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ واقعتا خبر مشاہدے کے برابر نہیں ہوسکتی اور بغیر دیکھے مضمون نہیں لکھنا چاہیے۔ حالات آنکھوں سے دیکھنے کے بعد جیسا مضمون لکھا ہے ایسا مضمون ہر گز نہیں لکھ سکتا تھا، چنانچہ اس کے بعد سے بغیر دیکھے اور مشاہدے کے کبھی ٹیبل اسٹوری نہ لکھی۔
یہی حال سفرنامے کا ہے۔ اگرچہ بعض رائٹر بن سفر کیے بھی سفرنامہ لکھ مارتے ہیں، لیکن باشعور پڑھنے والا شخص جلد ہی بھانپ جاتا ہے کہ اس نے کیسا سفر کیا ہے؟ چنانچہ سفرنامہ لکھنے کے لیے پہلی لازمی شرط سفر کرنا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سفر کرنے والے کا مشاہدہ تیز ہو، کیونکہ سفرناموں میں منظر نگاری کی جاتی ہے، جس علاقے اور جگہ کا سفر کیا ہوتا ہے، اس کی ایک ایک جگہ کی ایسی منظر کشی کی جاتی ہے کہ پڑھنے والا جب کبھی اس مقام پر جائے تو دیکھنے کے بعد اس کے ذہن میں وہ سارا منظر گھوم جائے اور وہ بے ساختہ کہہ اُٹھے کہ ہاں یہی وہ منظر اور جگہ ہے جس کا تذکرہ میں نے فلاں سفرنامے میں پڑھا تھا۔ 
منظر نگاری کے ساتھ واقعیت نگاری بھی ضروری ہوتی۔ واقعیت نگاری کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کا تذکرہ کیا جارہا ہے، جس چیز کی منظر نگاری کی جارہی ہے، وہ چیز واقعتا موجود بھی ہو۔ وہ چیز فرضی نہ ہو، خیالی نہ ہو، اس کا تعلق تخیل سے نہ ہو، بلکہ حقیقت اور واقعیت سے تعلق رکھتی ہو۔
اسی طرح سفرنامے میں کردار بھی ہوتے ہیں۔ یہ کردار کبھی اصلی ہوتے ہیں اور کبھی کسی مجبوری کے تحت فرضی بھی ہوتے ہیں، کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کسی شخص کا نام لے کر ذکر مناسب نہیں سمجھا جاتا، تو پھر اس جیسا کوئی کردار بنالیا جاتا ہے اور اس کردار سے وہ ساری باتیں کہلوادی جاتی ہیں یا اس کی طرف منسوب کردی جاتی ہیں۔ کردار سازی میں اس کردار کا حلیہ، نین نقش، چال ڈھال، شکل صورت، وضع قطع، بولنے کا انداز.... ہر ہر چیز کو لکھا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک کردار ”عبداللہ“ ہے۔ یہ ایک شخصیت، ہزار تضادات، نرم خو، کم زور دل، ہم درد، غم گسار، مونس و غم خوار ہے۔ من موجی، سادھو، البیلا، رنگ رنگیلا، چھیل چھبیلا بھی۔ کبھی اس قدر زود رنج و دل گرفتہ کہ کسی روتے کو کاندھا دے تو ساتھ اپنی بھی آنکھیں بھر آئیں، ہچکیاں بھرنے لگے۔ کبھی ایسا نوٹنکی باز کہ راہ چلتوں کے سنگ محبت و الفت کی پینگیں بڑھانے، گیت گانے لگے۔ ان جان، اجنبیوں کے ساتھ ناچ ناچ پاگل ہوا جائے.... عمر چور تو ہے ہی، پر ایسا من رسیا کہ بیک وقت تین جنریشنز کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ بچے ”بھائی بھائی“ کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ نوجوان تو اس کے ہم رکاب و ہم نوا ہیں ہی، بزرگوں کا بھی ایسا ”چہیتا برخوردار“ کہ اکثر کئی بڑی بوڑھیاں بلائیں لیتی اور دعائیں دیتی نظر آتی ہے۔ عبداللہ فطرتاً خوش مزاج ہے تو عادتاً خوش پوشاک ہے۔ صاف ستھرا ہی نہیں بناسنورا رہنا پسند کرتا ہے۔ حقیقت پسند تو ہے ہی دل کا بھی پاک ہے۔ بات کرنے کا مخصوص اسٹائل ہے۔ ”جی دیکھیں“ ان کا تکیہ کلام ہے۔“ قارئین! یہ ایک کردار ہے۔ سفرناموں میں ایسے کرداروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 
کردار سازی کے بعد مکالمے کا نمبر آتا ہے۔ منظرنگاری کی طرح مکالمہ بھی سفرنامے کی جان کہلاتا ہے۔ مکالمے کے بغیر سفرنامہ ادھورا شمار ہوتا ہے۔ مکالمہ ان لوگوں سے ہوتا ہے، دورانِ سفر جن جن حضرات و خواتین سے مختلف موضوعات پر تبادلہ ¿ خیال کیا گیا ہے۔ جن سے بات چیت کرنے اور انٹرویو لینے کا موقع ملتا ہے۔ مکالمے نقل کرتے ہوئے ان کی باڈی لینگویج کو بھی الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یوں لکھا جاتا ہے کہ اس نے چائے کی پیالی رکھتے ہوئے کہا۔ میں نے ہوا میں مکا لہراتے ہوئے جواب دیا۔“ وغیرہ وغیرہ۔ اس کی پوری تفصیل ”مکالمہ نگاری“ کے باب میں آگے آرہی ہے۔
کردار سازی اور مکالمے کی طرح وہاں کے لوگوں کے حالات ، ملاقاتوں کا حال احوال اور حقائق لکھنے کے بعد اس پر تبصرہ اور تجزیہ بھی پیش کرنا ہوتا ہے۔ تاریخی واقعات کے تناظر میں موجودہ صورت حال کا ذکر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی نے فلسطین کا سفر کیا اور واپس آکر سفرنامہ لکھا۔ فلسطین اور فلسطینیوں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں وہاں کے اور عالمی حالات دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”اب امن مذاکرات اور افہام و تفہیم کے علمبرداروں پر یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ کم از کم مذاکرات کے ناٹک کے ذریعے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے کچھ اور ہی کرنا پڑے گا۔ 
اور پھر ایک تاریخی مثال سے بات کو واضح کرتے ہوئے کہاکہ یہ 18 ویں صدی کی بات ہے۔ جرمنی نے فرانس کے کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ مکمل تسلط کے بعد گرجا گھروں کو بند کردیا۔ ایک مرتبہ فرانس کا ”ارنسٹ لیوس“ (Ernest Lavisse) نامی مصنف و صحافی وہاں گیا۔ سب سے بڑے چرچ میں حاضری دی۔ واپسی پر اپنے تاثرات میں عیسائیوں کو مخاطب کرکے لکھا: ”جب میں نے وہاں حاضری دی تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے گرجا گھروں کے میناروں سے آواز آرہی ہے: ”اے فرانسیسیو! تم کہاں ہو؟ ہم تمہارے منتظر ہیں۔“
عیسائی برادری میں یہ آواز اس قدر متاثر کن ثابت ہوئی کہ کچھ ہی عرصے بعد فرانس نے اپنے مقبوضہ علاقے جرمنی سے آزاد کروالیے اور گرجا گھر پھر سے آباد ہوگئے۔ آج قبلہ ¿ اوّل بیت المقدس کے سرخ مینار اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی روہانسی آواز 59 اسلامی ممالک اور 2 ارب مسلمانوں کو پکار رہی ہے کہ ہمیں صہیونی چنگل سے آزاد کراﺅ، ہماری مدد کرو۔ اے مسلمانو! جاگو! فلسطین آہستہ آہستہ جارہا ہے، صرف 8 فیصد باقی رہ گیا ہے۔“
اسی طرح سفرناموں میں لفظوں سے بھی کھیلنا ہوتا ہے۔ جابجا ضرب الامثال، حکایات، واقعات، تشبیہات، استعارات، تلمیحات، متضاد، متقابل، متقارب، مصرعے وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مستنصر حسین تارڑ اپنے سفرنامے ”امریکا کے سورنگ“ میں ایک عنوان باندھتے ہیں: ”بلھے شاہ ان نیویارک“ اور پھر ایک جگہ پر ان کا یہ شعر لکھتے ہیں.... چل بُلہیا چل چلئے جتھے سارے انھّے.... نہ کوئی ساڈھی ذات پہچانے نہ کوئی ساہنوں مَنّے....!! حاجی لوک مکّے نُوں جاندے اساں جانا تخت ہزارے.... 
حرفوں، لفظوں، جملوں اور عمدہ تراکیب سے کھیلنے کا مقصد اپنے قارئین کو متنوع مواد فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ بوریت محسوس نہ کریں۔ اسی طرح کوشش کی جاتی ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کو زیادہ سے زیادہ معلومات بھی فراہم کی جائیں، کیونکہ یہ معلومات اور انفارمیشن کا دور ہے۔ اس زمانے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ چیزوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانے۔ اسی طرح اپنے قارئین کے ساتھ مختلف اور نئے نئے آئیڈیاز بھی شیئر کیے جاتے ہیں۔ اپنے اور اپنے دوستوں کے تجربات بھی بتائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک سفرنامے میں مصنف نے اپنے کسی دوست کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
”ایک صبح نیند سے بیدا رہونے پر میں نے گلے میں خراش محسوس کی۔ اس قسم کی تکلیف عام ہے۔ اس وقت میں نے بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی۔ تھوڑی دیر بعد گلے میں درد بھی شروع ہوگیا، جسے دور کرنے کے لیے عام طور پر استعمال کی جانے والی ادویہ کا سہارا لیا، لیکن پھر محسوس کیا کہ میری آواز گویا حلق میں گُم ہوتی جارہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری بے چینی اور تشویش بڑھنے لگی، کیونکہ میں ٹھیک طرح سے بول نہیں پارہا تھا۔“ یہ اس تکلیف دہ اور باعثِ تشویش مرض کی ابتدا تھی جس نے مجھے جلد ہی قوتِ گویائی سے محروم کردیا۔“ چنانچہ آپ کسی بھی بیماری کو چھوٹی بیماری نہ سمجھیں۔ ہر بیماری کو بڑی بیماری تصور کرتے ہوئے فوراً علاج کروائیں۔“ 
اس طرح کی آٹھ دس باتیں اور شرطیں کامیاب سفرنامے کے لیے ضروری ہیں۔ دو چار ادیبوں کے سفرنامے پڑھنے سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ جو شخص سفرنامہ نگار بننا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ ابنِ بطوطہ، مستنصر حسین تارڑ، کرنل اشفاق، عطاءالحق قاسمی، کرنل محمد خان، مفتی تقی عثمانی وغیرہ کے سفرنامے ضرور پڑھے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ سفرنامہ کیسے لکھا جاتا ہے؟ اور کن کن باتوں کا خیال کرنا ضروری ہوتا ہے؟
نوآموزوں، نوواردوں اور صحافت کے طلبہ و طالبات کے لیے آخری بات یہ ہے کہ سفرنامے کی ابتدا چھوٹے سے سفر سے کریں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان لاہور میں رہتا ہے اور کراچی میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اب لاہور سے کراچی تک کا جو اس نے سفر کیا ہے، اس کی مکمل اور پوری رُوداد لکھے۔ گھر سے نکلنے بلکہ سفر کی تیاری کرنے سے لے کر کراچی اپنے تعلیمی ادارے میں پہنچنے تک کی لمحہ بہ لمحہ، قدم بہ قدم تفصیل لکھے۔ 
سفر کی تیاری کیسے کی؟ کیا کیا چیزیں سفری بیگ میں رکھیں؟ گھر سے نکلتے وقت چھوٹے بھائیوں نے کیا کہا تھا؟ لاڈلی بہن کے کیا تاثرات تھے؟ جدائی کے وقت والدین خصوصاً والدہ محترمہ کے کیا جذبات تھے؟ گھر سے اسٹیشن، بس اسٹینڈ یا ایرپورٹ تک کس نے پہنچایا؟ بھائی نے، والد نے یا ٹیکسی والے نے؟ گھر سے اسٹیشن تک راستہ بھر کیا کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا؟ لاہور اسٹیشن، بس اڈّے یا ایرپورٹ پر کیا بیتی؟ اور پھر کراچی پہنچنے تک کیا کچھ ہوا؟ 
سفر میں انسان کو بے شمار تجربات اور مشاہدات ہوتے ہیں، لوگوں سے میل ملاپ ہوتا ہے۔ ہمسفروں سے بات چیت ہوتی ہے۔ وہ ساری باتیں سادگی کے ساتھ ایک ترتیب سے لکھتے چلے جائیں۔ سفر کی تیاری سے لے کر اپنی درسگاہ اور کلاس میںپہنچنے تک قدم بہ قدم اور لمحے لمحے کو لکھنا ہے۔ اس طرح دوچار چھوٹے چھوٹے سفروں کی لمبی لمبی تحریریں لکھنے سے آپ کو لکھنا آجائے گا۔
صحافت کے میدان کے نووارد یاد رکھیں کہ مختلف اسفار اور مطالعاتی دورے صحافی کے لیے لازم ہوتے ہیں۔ جب بھی سفر کا موقع ملے تو ضرور کریں۔ جب بھی کسی کانفرنس، ورکشاپس اور اجتماعات میں شرکت کی دعوت دی جائے تو ضرور جائیں اور پھر واپس آکر اس کی پوری، مکمل اور جامع رُوداد لکھیں۔ اگر ایک گھنٹے کا بھی سفر کریں تو واپس آکر اپنے سفر کی سفر بیتی لکھیں، کہیں پر بھی جائیں واپسی پر اپنے تجربات اپنے قارئین سے شیئر کریں۔ اپنے مشاہدات بیان کریں۔ اپنی تحریر میں اپنے میزبانوں، مہمانوں، شرکائے مجلس کا ذکر تفصیل سے کریں۔ 
کوئی شخص ایسا نہیں ہوگا جس نے اپنے ملک کے اندر کوئی نہ کوئی سفر نہ کیا ہو۔ ہر شخص نے لازمی سفر کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان سفروں کی رُودادیں لکھنے سے آغاز کریں۔ ہر سفر کے بعد اس کی سرگزشت احاطہ ¿ تحریر میں لائیں۔ ایک دو سال تک آپ نے اس طرح کرلیا تو ایک وقت آئے گا آپ کا شمار ممتاز سفرنامہ نویسوں میں ہونے لگے گا۔
اے صحافت کے میدان کے نووارد بھائیو! اپنا مطالعہ بڑھاتے رہیں۔ سفر کرتے رہیں۔ سفر کے بعد اس کی چھوٹی چھوٹی رُوداد لکھتے رہیں۔ اپنے پاس زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کرنے کی کوشش کریں۔ نئے نئے آئیڈیاز سوچیں۔ خیالات کو آنے دیں۔ خواب دیکھیں۔ تعلقات بنائیں۔ مثبت سوچ رکھیں۔ صبر سے کام لیں۔ 
صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ شارٹ کٹ کی تلاش میں اکثر نووارد اپنا راستہ کھوبیٹھتے ہیں۔ کسی بھی انمول چیز کو حاصل کرنے کے لیے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ کسی بھی حسین مقام تک پہنچنے کے لیے مشکل، پیچیدہ، کٹھن اور طویل سے طویل تر سفر کرنے پڑتے ہیں۔ صحافت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اس میں ترقی کے لیے چیونیٹوں کی چال چلنا پڑتا ہے۔ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ چیونٹی کی چال چلتے رہیں۔ صحافت میں ترقی چیونٹی کی چال کی طرح ہوتی ہے۔ کہتے ہیں: ”ترقی چیونٹی کے پاﺅں لے کر پیدا ہوتی ہے، لیکن جوان ہونے تک اس کے پاﺅں ہاتھی جتنے بڑے ہوجاتے ہیں۔ “
صحافت کے میدان میں کام چور، بدمحنت، نکمے اور بے صبرے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ محنت، جذبہ، حوصلہ، صبر، مشقت، تکنیک، تعلقات، تجربات، مطالعے اور ہمت کے ساتھ ترقی کی منازل طے ہوتی ہیں.... انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکو تو آﺅ.... میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے....!!

Share this:

1 comment :

  1. ماشاءاللہ ❣️❣️
    سارے سوالات جو ذہن میں اٹھ رہے تھے سبھی جوابات پالئے۔
    اللہ پاک جزا دے آپ کو۔
    جواب تو چھوڑیں کچھ ایسے سوالات بھی ملے جو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔

    ReplyDelete

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes