داستانِ اردو،داستانوی ادب کا ابتدائی ڈھانچہ


ادب/فکشن کے تاریخی حوالہ جات دو ہزار قبل مسیح تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک واضح اور ہئیتی حوالے سے نسبتاً معیاری لکھت کے پیشِ نظر قدیم یونانی شاعر ہومر اورآگسٹن بادشاہوں کے دور میں رومی شاعر ورجل کی تخلیقات کو مانا جاتا ہے۔ ہومر کی “الیڈ اور اوڈیسی” دو داستانوی منظومے ہیں اور دونوں بیانیاتی سطح پر باہم منسلک ہیں۔ورجل کی “ایکلاگز اور اینی ایڈ” بھی دانستانوی منظومے یا**ایپک پوئمز** ہیں اور ان تمام کلاسک لکھتوں کا موضوع جنگ اور سفر رہا ہے۔ہندو مت میں وید اور پراکرت سب سے پرانا لٹریچر متصور ہوتا ہے اور مذہبی / قومی پس منظر میں قدیم یونانی اور مصری مخطوطے بھی ابتدائی فکشن کے نقوش وضع کرنے میں معاون ثابت ہوئے۔ہومر کی ایپک “اوڈیسی” اور “ایلیڈ” کلاسک شاہکار کا درجہ اختیار کر گئی اور اس کا سب سے بڑا سبب یہ رہا کہ اس سے قبل اسطور کا اتنی بہتر تکنیک / ہئیت میں اظہارنہیں ہوا تھا۔ اوڈیسیس ایک طویل ترین سفرجس میں” ٹرائے” کا سفر بھی شامل ہے پر روانہ ہوا اور سفر کے دوران ان تمام اساطیری علائم اور سمبلز کے توسط سے کائنات کے گورکھ دھندے کو سمجھنے کی تگ و دو بھی کرتا رہا اور واپسی کے جتن بھی۔

 بہرحال سفر کے دوران جوانی کا بڑھاپے میں ڈھلنا اوردس برس بعد واپس اپنے محل پہنچنے پر جوان ہوجانا سب سمبالک پیٹرن پر اسطور کو ایک بہترین نہج پر پیش کیا گیا ہے۔ ہومر کے پیٹرن نے ہی اس ایپک کو ایک معتبر ابتدائی ادبی لکھت کی ذیل میں لاکھڑا کیا۔میرے خیال سے آج ادب کے ضمن میں جو کچھ بھی لکھا جارہا ہے اس کا جوہر ہومر اور ورجل کے عظیم الشان تخلیقی فن پاروں سے کشید ہوا ہے پھر بھلے وہ نثر ہو یا نظم ۔۔۔۔۔ آپ اگر داستانوی / فکشنل نیریشن دیکھنا چاہتے ہیں تو ہومر سے بہترین مثال نہیں ملتی اور اگر رجزیہ / نظمیہ طمطراق اور شکوہ دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی موصوف کی لکھتوں کی طرف نظر جاتی ہے۔

٭ آج 2018 ء میں کیا داستان گوئی دوبارہ رواج پا سکے گی ؟

٭ انگریزی میں ہیری پوٹر ( سات ناول) جیسے ناول نہ صرف لکھے گئے بلکہ انتہائی مقبول بھی ہوئے ۔ وہاں ہم سے کہیں زیادہ میکانکی سماج ہے ۔ اختصار بھی مغرب کی دین ہے ۔
افسانہ ، ناول ، فلیش فکشن سب ادھر سے تو آیا ۔
شارٹ کٹ کیا ہمارے ہی مزاج میں ہے ؟
٭ کیا یہ پرنے پیرا میٹرز نئے بیانیہ میں نہیں برتے جا سکتے؟
٭اصل مدعا یہ ہے کہ داستان کے بنیادی خدوخال کیا ہیں اور انہیں عصری نثری / افسانوی ہئیتوں میں کیوں کر پیوند کیا جاسکتا ہے؟

داستان کیا ہے؟

داستان ایسے طویل نثری قصے کو کہتے ہیں، جس کی بنیاد تخیل، رومان، جذبات اور مافوق الفطرت عناصر پر ہو۔ اور اس میں قصہ در قصہ (کئی قصے) بیاں ہوں۔
داستان کسی خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہے جو محبت، مہم جوئی، سحرو طلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہوں اور مصنف کے آزاد و زرخیز ذہن کی پیداوار ہو۔
داستان کی خصوصیات:۔
داستان میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے۔ جادوں کی چیزیں، جادوں کے واقعات، خزانوں، جن ،پریوں، بھوت پریت، شہزادے، شہزادیوں کا ذکر قدم قدم پر نظر آتا ہے۔
داستان ناول یا افسانے کے برعکس ہماری خارجی دنیا سے بلند و برتر ایک مثالی اور خیالی دنیا کی کہانی ہوتی ہے، جس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں۔داستان کے سمجھنے کے لیے ہم قریب ترین مثال مغرب سے دے سکتے ہیں جس کا ذکر اوپر ایک سوال کے تناظر میں بھی کیا گیا ہے یعنی ” ہیری پوٹر”گو اسے وہاں ناول کے طور پر پیش کیا گیا لیکن اس کی تمام خصوصیات ہماری داستان سے ملتی جلتی ہیں۔
مثلاً:۔
٭ اس میں مافوق الفطرت عناصر، واقعات، مقامات اور کرداروں کی کثرت ہے۔
٭ اس میں قصہ در قصہ (کئی قصے) بیان ہوئے ہیں۔
٭ اس کی کہانی کسی خیالی اور مثالی دنیا کی کہانی ہے جو محبت، مہم جوئی، سحرو طلسم، جیسے غیر معمولی عناصر پر مشتمل ہے۔
٭ اس میں مثالی کردار بستے ہیں اور مثالی واقعات آتے ہیں جو آخر کار مثالی نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس ضمن میں “ہیری پوٹر” کو مثال کے طور پر پیش کرنے کا مقصد اردو داستان کو جدید منظر نامے میں دیکھنے پرکھنے کی ایک کوشش ہے۔یہاں اکثریت نے اردو داستانیں نہیں پڑھ رکھی ہوں گی لیکن “ہیری پوٹر” کو ناول کی صورت پڑھ یا فلم کی صورت ضرور دیکھ رکھا ہو گا۔داستان کے اجزاء ترکیبی سے پہلے صنفی بحث سمیٹتا چلوں ادب کی اصناف اپنی مخصوص تکنیکس اور خصوصیات کی بنا پراپنا جدا مقام رکھتی ہیں اور ایک دوسرے سے علیحدہ پہچانی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم صرف اقتباس دیکھ کر ہی پہچان جاتے ہیں کہ یہ کسی ناول کا اقتباس ہے یا کسی کہانی کا یا کسی افسانے کا یا کسی داستان کا ۔میں ادب میں زیادہ سے زیادہ اور جدید سے جدید تر اصناف کے اپنانے اور برتنے کا قائل ہوں۔ تخلیق کار کے پاس تخلیق کرنے کا جتنا وسیع میدان ہوتا ہے اتنے ہی زیادہ تخلیقات کے منظر عام پر آنے اور قاری تک پہنچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔مغرب میں بس ادب تخلیق ہوتا ہے وہاں پاپولر ادب اور ادب ِ عالیہ یا سنجیدہ ادب کی کوئی تفریق نہیں ہوتی وہاں زیادہ پڑھا جانے والا ادب پاپولر ادب بھی ہے ،سنجیدہ ادب بھی اور ادب ِ عالیہ بھی وہی ہے جیسے “ہیری پوٹر” اور اس ہی پر تنقید بھی لکھی جاتی ہے۔اردو میں ایک خاص قسم کی تفریق پائی جاتی ہے۔سنجیدہ اور پاپولر ادب میں یہاں ڈائجسٹ کی سطح کا لکھا جانے والا تمام ادب پاپولر ادب کے کھاتے میں ڈال کر رد کر دیا جاتا ہے نہ تو انہیں سنجیدہ ادبی دوڑ میں شامل کیا جاتا ہے نہ ان پر تنقید لکھی جاتی ہے نہ حوالے کے لیے ہی تذکرہ کیا جاتا ہے ۔پھر چاہے وہ فرحت عباس شاہ یا وصی کی شاعری ہو یا عمیرہ احمد اور نمرہ احمد یا رضیہ بٹ کے ناول کہانیاں ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان متروک اصناف کو پھر سے برتتا ہے اور ان میں نئی چمک پیدا کر دیتا ہے تو اسے خوش آمدید کہنا چاہیے ناکہ اس کے پیچھے لٹھ لے کر دوڑ پڑنا چاہیے۔
اب چلتے ہیں داستان کے اجزائے ترکیبی کی جانب۔

٭ طوالت

داستان میں طوالت کی کوئی قید نہیں یہ ایک گھنٹے سے لیکر ایک سال یا ایک عمر تک بھی طویل ہو سکتی ہیں مثلاً مرزا رجب علی بیگ کی داستان ” فسانہء عجائب” کا شمار مختصر ترین داستانوں میں ہوتا ہے جب کہ نواب امان اللہ خاں غالب کی داستان ” امیر حمزہ” کا شمار طویل ترین داستانوں میں ہوتا ہے۔داستان کو طوالت کے لیے قصہ در قصہ آگے بڑھایا جاتا ہے جن کا مرکزی قصے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(میری ذاتی رائے میں داستان کے احیا کے لیے اس کا مختصر ہونا ضروری ہے)

٭پلاٹ

در اصل داستان کا کوئی پلاٹ ہی نہیں ہوتا پلاٹ تو ناول کے ساتھ آیا ہے۔داستانوں میں نہ تو مربوط پلاٹ کا کوئی تصور ہے نہ واقعات میں کوئی ترتیب ۔لکھاری آزاد ہے جب چاہے مرکزہ قصہ کو چھوڑ ایک نیا قصہ شروع کر دے لیکن یہ ثانوی قصے جو مختلف وجوہاتے کی بنا پر شروع کیے جاتے ہیں شروع کرنے کے بعد مکمل کرنے لازمی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ مصنف یا داستان گو گاہے ماہے اپنے مرکزی قصے سے رجوع کرتا رہتا ہے ۔ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ ایک داستان شروع کی جائے اس کے بعد مرکزی قصہ چھوڑ کر قصہ در قصہ داستان آگے بڑھائی جائے اور درمیان میں مرکزی قصے کو نہ شامل کیا جائے اور آخر میں مرکزی قصے پر لوٹ کر داستان ختم کر دی جائے۔

٭ کردار نگاری

داستان میں حقیقی زندگی کے فطری کردار نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں ۔زیادہ تر کردار اعلٰی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔جو دیکھنے میں انسانوں جیسے ہو سکتے ہیں لیکن اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے مثالی کردار بن جاتے ہیں جیسے ایک شہزادہ دیکھنے میں انسان لیکن غائب ہونے کی صلاحیت کی وجہ سے مثالی کردار میں ڈھل جاتا ہے۔بہت طاقتور جنوں ، پریوں، دیووں سے مقابلہ کرنے والے کردار جو عم زندگی میں نہیں پائے جاتے۔جو انسان عام زندگی میں نہیں کر سکتے وہ سب داستانوں میں ممکن ہوتا ہے ۔یہ بھی داستان کی ایک خصوصیت ہے۔

٭مافوق الفطرت عناصر

داستان میں مرکزی کرداروں کے علاوہ فوق الفطری کردار و عناصر بھی ہوتے ہیں جیسے جن۔پری۔دیو۔جل پری۔اڑنے والے گھوڑے۔جادوئی ٹوپی۔نقش تعویز ۔اڑنے والے قالین۔ جادوئی تلوار ،تیر وغیرہ جن کا ہماری عام فطری زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔یہ غیر فطری عناصر ہی داستانوں کا اہم سرمایا ہیں اور ان ہی سے ہماری داستانیں پہچانی جاتی ہیں۔اسی سے داستان کی حیرت انگیز دنیا آباد ہوتی ہے اور داستان کو دوسری اصناف سے ممیز کرتی ہے۔

٭منظر نگاری

منظر نگاری کے حوالے سے بھی داستان بہت زرخیز ہوتی ہے۔ہماری داستانیں اردو ادب کا بیش بہا اثاثہ ہیں منظر نگاری کے نقطہء نگاہ سے۔
داستان نگاروں نے مختلف ممالک کے جغرافیائی حالات۔ پہاڑ ریگزار۔بندرگاہیں۔شادی بیاہ۔عرس۔موسم۔میلے ۔ دریا۔ ایسے مناظر کا بڑی تفصیل اور سلیقے سے ذکر کیا ہے اپنی داستانوں میں کہ سارے مناظر آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔

٭تہذیب و معاشرے کی عکاس

داستان تہذیب و معاشرے کی عکاس ہوتی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ ہماری داستانوں سے دکن و شمال ،لکھنئو و دہلی کی پوری تہذیبی اور معاشرتی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے۔داستان نگار اپنی تہذیب اور معاشرت کی مکمل تصویر اپنی داستان میں پیش کرتا ہے۔داستان میں رہن سہن کے آداب۔کھانے پینے کی اقسام۔ملبوسات۔سواریاں۔ ملازم۔چور اچکوے۔زیورات ۔جانور۔غرض ہر چیز کا ذکر تفصیل سے کیا جاتا ہے اپنے ثقافتی رنگ کے ساتھ۔

٭اخلاق کا درس

داستان میں اخلاق کا درس لازمی ہونا چاہیے۔داستان کا انجام طربیہ اور نصیحت وسبق آموز ہوتا ہے۔داستان میں حق کی فتح اور باطل کی شکست ہر جگہ بار بار دکھائی جاتی ہے اور داستان میں ہمدردی۔نیکی۔وفاداری۔شجاعت کا درس بھی لازمی شامل کیا جاتا ہے۔اچھے اخلاق کی تبلیغ۔اور جرات اور محبت و بھائی چارے کی تلقین کی جاتی ہے۔

٭انجام

داستان کا انجام طربیہ ہوتا ہے ہمیشہ نیکی کی فتح ہوتی ہے اور بدی کو مات ہوتی ہے داستان کا ہیرو ہر مشکل سے گزر کر آخر فتح مند ہوتا ہے ۔داستان میں ہمیں زندگی کی امیدیں امنگیں حسرتیں آرزوئیں پوری ہوتی نظر آتی ہیں۔

٭زبان و بیان

داستانوں میں دو طرح کے اسالیب کو برتا گیا ہے ایک رنگین مسجع فارسی آمیز اور دوسرا سادہ سلیس اور با محاورہ دونوں اسالیب میں داستان نگاروں نے اپنے اپنے فن کے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔(اس معاملے میں ،میں اسلوب کو تخلیق کار کی صوابدید پر چھوڑنے کے حق میں ہوں کوئی آج کے دور میں داستان لکھے تو کسی نئے جدید اسلوب کو بھی اپنا سکتا ہے)
ان اجزائے ترکیبی کو سمجھ کر ہم اردو داستان کی صنفی حیثیت کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور ان کے برتاؤ سے بیانیہ کی جدید صورت گری بھی کر سکتے ہیں ہماری داستانوں نے ہی آنے والے زمانے کے فکشن کی بنیاد فراہم کی ہے جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔۔۔

Share this:

1 comment :

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes