غیر افسانوی ادب

غیر افسانوی ادب


تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب۔ تخلیقی عمل میں دنیا کی حقیقتوں، مسائل، تجربات، مشاہدات اور احساسات کو قصہ پن کے بغیر ادب اور فن کے تقاصوں کی تکمیل کے ساتھ پیش کیا جائے تو ایسی نثر غیر افسانوی نثر کہلاتی ہے۔ غیر افسانوی ادب میں قصہ بیان کرنے کی بجائے ادیب، زندگی میں در پیش حقیقی واقعات کو اپنے احساسات، اختیار کردہ مخصوص صنف کی ہیئت کے دائرہ کار میں پیش کرتا ہے ۔

معروف تعریف کے مطابق ادبی سطح پر غیر افسانوی نثر سے ہم ایسی نثر مراد لیتے ہیں جس میں کہانی کا عنصر موجود نہ ہو۔ ہماری جامعات میں اُردو نثر کی تقسیم اسی بنیاد پر کی جاتی ہے۔جن اصناف نثر میں کہانی کا عنصر موجود ہو انھیں ”افسانوی ادب“ کے ذیل میں رکھا جاتا ہے اور دیگر نثری اصناف جن میں کہانی کا عنصر موجود نہیں”اسالیب نثر اردو“ کے تحت پڑھائی جاتی ہیں۔
جامعاتی سطح پر دو خاص تکنیکی حوالوں سے نثر کی تدریس، نظم یا شاعری کی تدریس سے مشکل ہوجاتی ہے۔ سب سے اہم تکنیکی مسئلہ یہ ہے کہ ہم آج بھی نثر کو نظم کی شعریات کے تناظر میں پڑھاتے ہیں۔ اوّلین ضرورت یہ ہے کہ نثر کو نظم کی شعریات سے الگ کرکے پڑھایا جائے اور یہ ذہن میں رکھا جائے کہ اب نثر کی شعریات وضع ہوچکی ہے۔ بات صرف اُسے سمجھنے اور تدریس میں برتنے کی ہے۔


دوسرا تکنیکی مسئلہ یہ ہے کہ غزل یا نظم کی تدریس اُس کے مکمل متن کو سامنے رکھتے ہوئے کی جاسکتی ہے لیکن نثر میں یہ ممکن نہیں۔ آپ ”شہاب نامہ“ یا ”دنیاگول ہے“ یا”آبِ گُم“ وغیرہ کے سارے متن کو سامنے رکھتے ہوئے تدریسی تقاضوں کو پورا نہیں کرسکتے۔ مزید براں یہ کہ غیر افسانوی نثر کی تدریس، افسانوی نثر کی تدریس سے بھی نسبتاً مشکل ہوجاتی ہے۔ یہاں بنیادی مسئلہ دلچسپی کا عنصر ہے۔ غیر افسانوی نثر، کہانی کا عنصر نہ ہونے کی وجہ سے طلبا کی نظر میں غیر دلچسپ ٹھہرتی ہے۔ افسانوی نثر میں کہانی پن کی وجہ سے جو دل آویزی، رنگا رنگی اور دلچسپی پیدا ہوتی ہے وہ غیر افسانوی نثر میں مفقود ہوتی ہے۔ پھر یہ کہ قصہ کہانی سے طلبا کسی نہ کسی شکل میں واقف ہوتے ہیں لیکن غیر افسانوی نثری اصناف سے جامعات کے طلبا بھی بالعموم آگاہ نہیںہوتے۔
اصناف کی بات ہوئی تو یہ بتاتا چلوں کہ جامعات میں افسانوی اور غیر افسانوی ہر دو طرح کی نثر کی تدریس مختلف اصناف کی صورت میں کی جاتی ہے۔ اور یہ ضروری بھی ہے کیوں کہ مختلف اصناف میں نثر اپنی صورت بدلتی ہے بلکہ مضمون جیسی صنف میں موضوع کی مناسبت سے بھی نثر اپنی شکل تبدیل کرتی ہے اور اس حوالے سے کسی نہ کسی حد تک مختلف اصناف کی تدریس کے تقاضے بھی بدلتے ہیں۔ لہٰذا اصناف کی تقسیم سے تدریس کا عمل موثر ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ تقسیم کی جاتی ہے وہ مقصد تدریسی عمل سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ مثلاً جامعات سے فارغ التحصیل طلبا یہ تو بتا سکتے ہیں کہ مضمون نگاری ایک نثری صنف ہے مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ مضمون کی نثر موضوع کی مناسبت سے اپنی ہئیت بھی بدلتی ہے اور نہ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ اپنی ہئیت کیسے بدلتی ہے، پھر یہ کہ مختلف اصناف میں نثر کی ہئیت کیا شکل اختیار کرتی ہے۔

اصناف کی تقسیم اس لیے بھی اہم ہوتی ہے کہ طلباءان نثری اصناف سے اور اُن کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہوسکیں۔ خاص طور پر جامعاتی سطح پر اصناف کی سرسری تعریف یا مبادیات ہی نہیں اُس سے بڑھ کر بھی کچھ جان سکیں مثلاً سفرنامہ نگاری کو لیں، جامعات میں بھی صرف یہ ہی بتایا جاتا ہے کہ جب کوئی ادیب کسی دوسرے ملک کا سفر کرتا ہے اور اس کے بعد سفر سے متعلق اپنے تاثرات، مشاہدات، حالات اور واقعات نثر میں پیش کرتا ہے تو اُسے سفرنامہ کہتے ہیں۔ لیکن یہ تعریف تو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطحوں کے طلباءکی تدریس کے دوران بھی کی جاتی ہے۔ وہاں بھی مختلف سفرناموں کے مختصر اقتباسات شامل نصاب ہوتے ہیں اور مدرس یہ بنیادی تعریف بتا کر ہی سبق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر جامعاتی اور ثانوی سطحوں کی تدریس میں کیا فرق ہوا؟ جامعاتی سطح پر تو ضرورت ہے کہ طلبا کو اصناف کی مبادیات سے آگے بڑھایاجائے اور بعض صورتوں میں مبادیات کو چیلنج بھی کیا جائے۔ خیر اس کا مطلب اب یہ بھی نہیں کہ تدریسی عمل میں مبادیات کو یکسر فراموش کردیا جائے۔ مبادیات کی تدریس پہلا قدم ضرور ہے کیوں کہ ہم یہ بھی توقع نہیں کرسکتے کہ جامعات کی سطح پر پہنچنے والے تمام طلبا ہر صنف کی مبادیات سے اچھی طرح واقف ہو ں گے اور وہ اس لیے کہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر مدرس بے شک جزواً جزواً تو بتاتا ہے کہ یہ سفرنامہ ہے، یہ افسانہ ہے یا یہ مضمون ہے مگر کلیتاً وہ نثر کی تمام اقسام کو ایک ہی نام یعنی ”نثری اسباق“ سے جوڑنے پر مجبور ہوتا ہے کیوں کہ وہاں نصاب کی ترتیب و تنظیم ہی ایسی بنیادوں پر کی گئی ہوتی ہے۔ لہٰذا طلباءکا بنیادی تصور یہ ہوتا ہے کہ اُن کے نصاب میں چودہ یا پندرہ نثری اسباق ہیں۔ اُن میںسے کتنے مضامین، کتنے افسانے، کتنے ناول یا ڈراموں کے اقتباسات اور کتنے سفرنامے وغیرہ شامل ہیں، طلبا کی بیشتر تعداد زیادہ دیر تک ان باتوں سے آگاہ نہیں رہتی۔ اس لیے جامعات کی سطح پر اصناف میں تفریق اُن کی مبادیات کی تدریس سے پیدا کرنا ضروری اور پہلا قدم ہے لیکن زور اس بات پر ہے کہ یہ آخری قدم نہیں ہے۔ جیسا کہ ذکر ہوا کہ مزید آگے بڑھنا ضروری ہے۔ مثلاً بات سفرنامہ نگاری کی ہورہی تھی تو اس ذیل میں تدریس کا عمل تعریف اور دو چار سفرناموں کے تذکرہ یا شامل نصاب سفرنامہ کے خلاصہ کردینے پر مکمل نہیں ہوگا۔ بات کو ان حدوں سے آگے لے جانا ہوگا۔ مثلاً سفرنامے کو دو تہذیبوں میں قربت کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ بتایا او ر سمجھایا جاسکتا ہے اور اُّ س کے لیے شامل نصاب سفرنامے سے ہٹ کر دیگر سفرناموں خاص طور پر عالمی کلاسکس کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔مثال کے طور پر مارکوپولو کے مشہور زمانہ سفرنامہ کو پیش کیا جاسکتا ہے جس نے اپنے سفرنامے سے مشرق کے بارے میں مغرب کے نقطہ نظر کو بدل کر رکھ دیا۔ اس سفرنامہ کی وجہ سے اہلِ مغرب کا یہ خیال کہ اہلِ مشرق وحشی اور غیر متمدن ہوتے ہیں، بڑی حد تک تبدیل ہوگیا۔ اور یوں مارکوپولو کا یہ سفرنامہ مغربی اور مشرقی تہذیبوں کو قریب لے آیا۔ یعنی یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اعلیٰ سفرنامہ دو تہذیبوں کے درمیان مخاصمت ، دوری اور تعصبات کو مٹانے کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ وہ صرف مہمات کو ہی دلچسپ پیرائے میں نہیں ڈھالتا بلکہ دوتہذیبوں یا ثقافتوں کے درمیان اپنائیت، یگانگت اور انسانی تعلقات کو بھی استوار کرتا ہے۔ لیکن ہر سفرنامہ یہ فریضہ انجام نہیں دیتا۔ بہت سے سفرنامہ نگار دوسری تہذیب کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ طلباکو ان ہر دو طرح کے لکھنے والوں سے واقف کیا جانا ضروری ہے اور اس کی شناخت سفرنامہ نگار کے اسلوب نثر سے ہی کرائی جاسکتی ہے۔ اگر سفرنامہ نگار دو تہذیبوں کو قریب لانے اور محبت پیدا کرنے کا خواہاں ہوگا تو اس کے اسلوب سے اپنائیت اور خلوص جھلکتا دکھائی دے گا اور اگر مصنف کا نقطہ نظر مخاصمانہ اور عنادانہ ہے تو پھر اُس کے اسلوب میں نفرت اور تعصب کا رنگ ظاہر ہوگا۔

مقالے کا آغاز ہم نے اس بات سے کیا تھاکہ جامعات میں شامل نصاب نثری متون کلاس میں نہیں پڑھائے جاسکتے جب کہ نثر کا طریق تدریس بھی ممکن حد تک Text Oriented یعنی متن اساس ہونا چاہیے۔ کلاس میں متن موضوع تو بنتاہے مگر خود اُس کا وجود کلاس سے غائب ہوتا ہے۔ عام رویہ یہ ہے کہ طلباءکو از خود متن پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن طلباءبراہ راست متن پڑھنے کے بجائے اس نثری متن سے متعلق اِدھر اُدھر سے چند تنقیدی مضامین پڑھ کر ایک تاثر قائم کرلینے پر اکتفا کرلیتے ہیں جو کسی بھی طور پر احسن رویہ نہیں۔ ہمیں کسی بھی طور متن کوکلاس میں لانا ہے۔ یہ درست کہ پورا نثری متن کلاس میں نہیں پڑھا جاسکتا لیکن اساتذہ طویل نثری فن پاروں کے ایسے منتخب اقتباسات ضرور کلاس میںپڑھا سکتے ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ بنیادی موقف کی بھرپور وضاحت ہوسکے بلکہ طلبا اعلیٰ نثر کے نمونوں سے براہ راست آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ لطف اندوز بھی ہوسکیں۔ علاوہ ازیں طلبا کے ذمہ ایسی اسائنمنٹس لگائی جاسکتی ہیں جن کی تیاری میں وہ متن کو براہ راست پڑھنے پر مجبور ہوسکیں۔ پھر یہ کہ کلاس میں دوران بحث اس بات کا پابند کیا جاسکتا ہے کہ طلبا دلیل کے لیے متن کوٹ کریں وغیرہ وغیرہ۔

اصل اور خالص غیر افسانوی نثر کی تدریس سرسید احمد خان کی نثر پڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ کیوں کہ مضمون نگاری وہ صنف ادب ہے جو غیر افسانوی نثر کی تعریف پر پوری طرح، پوری اترتی ہے۔ سرسید احمد خان کی مضمون نگاری اس حوالے سے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ وہ پہلا قدم تھا جس سے اردو نثر نے پہلی بار اردو نظم سے خود کو اس قدر ممتاز کیا۔ سرسید نے ہی پہلی بار اردو نثر کو جذبات کے اثر سے نکال کر عقل کے تابع کیا لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ سرسید کی نثر میں جذبات کا عمل دخل سرے سے موجود ہی نہیں۔ بے شک اُن کی نثر میں جذبات بھی ہیں اور تخیل بھی لیکن اس نثر کو بنیادی سروکار عقل سے ہے اور یہی عنصر اسے خالص نثر کے ذیل میں لاتاہے۔

یہ بات تو ہم سب پر عیاں ہے کہ سرسید کی نثر مقصدیت کی حامل ہے اور ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح پر سرسید کے مضامین اسی بنیادی تصور کے تحت ہی پڑھائے جاتے ہیں لیکن سرسید کا کمال محض یہ نہیں کہ انھوں نے مقصدی اور خالص علمی نثر کو اُردو میں رائج کردیا بلکہ کمال یہ ہے کہ ان کے مضامین کی ایک خاص تعداد علمیت اور مقصدیت کے باوجود ادبیت کی حامل ہے۔ جامعاتی سطح پر سرسید کی نثر کی تدریس کا مرکزی نقطہ یہ ہونا چاہیے۔ سرسید نے جو مذہبی اور تعلیمی یا علمی نوعیت کے مضامین لکھے ان کی اہمیت اپنی جگہ پر اور اُن کا ذکر بھی ضرور کیا جانا چاہیے لیکن تدریس کا مرکز سرسید کی وہ نثر ہونا چاہیے جو ادبیت کے ذیل میں آتی ہے۔ ثانوی اور اعلی ثانوی درجوں پر بے شک اس کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی اور نہ اتناوقت ہوتا ہے کہ ان طلباکو سرسید کی نثر کی ادبیت سے پوری طرح آگاہ کیا جائے لیکن جامعاتی سطح پر اور خاص طور پرجامعات کے اردو کے شعبہ جات میں اس سے گریز ممکن نہیں۔ اگر سرسید احمد خان کو شعبہ سیاسیات یا شعبہ تاریخ وغیرہ میں پڑھایا جارہا ہو تو پھر سرسید کی ادبیت سے زیادہ علمیت اور مقصدیت زیر بحث آئے گی لیکن اردو ادب میں سرسید کے مضامین علمی حیثیت کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اپنی ادبیت کی وجہ سے ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

اصل میں جامعات کی سطح پر سرسید کی نثر کو پڑھاتے ہوئے بہت سی باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے اور بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ سرسید کی نثر کی بہتر سے بہتر تدریس، اردو کی غیر افسانوی نثر کی مجموعی تدریس میں حد درجہ معاون ثابت ہوتی ہے۔ یہاں تین چار اقدامات کی بات خاص طور پر کی جائے گی۔

اس تدریس کا پہلا قدم تو یہی ہے کہ سرسید کی ادبیت کو پوری طرح موضوع بنایا جائے اور ان کی مقصدیت کا راگ یہ سوچ کر ذرا کم الاپا جائے کہ یہ کام پچھلے درجوں میں بہ احسن و خوبی نبھایا جاچکا ہے لہٰذا پہلے پہل سرسید کے وہ مضامین پڑھائے جائیں جن میں ادبیت کا رنگ واضح ہے مثلاً ”گزرا ہوا زمانہ“،” خوشامد“،”امید کی خوشی“،’ سراب حیات“،”بحث و تکرار“ اور ”آدم کی سرگزشت“ وغیرہ۔ لیکن سرسید احمد خان کی ہی نثر سے ہم مضمون کی مختلف اقسام میں تفریق کی تدریس بھی کرسکتے ہیں اور طلباءکو علمی مقالہ، ادبی مضمون اور انشائیہ میں فرق کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک ایسا انتخاب پیش نظر رکھنا ہوگا جس کے مطالعہ سے اور کلاس میں بحث کے بعد طلبا اس بات سے آگاہ ہوسکیں کہ ان تینوں اقسام میں کیا فرق ہے۔ بالعموم ایسا نہیں کیا جاتا اور طلباءکا concept اس معاملے میں صاف نہیں ہوپاتا۔ حالاں کہ انشائیہ کی بحث کو بھی سرسید کی مضمون نگاری کے تذکرہ میں ہی نپٹایا جاسکتا ہے۔ سرسید کے مضامین میں انشائی طرز کی تلاش بھی کوئی مشکل امر نہیں۔ اس ضمن میں”طریقہ تناول طعام“ جیسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اور اردو انشائیہ کے ابتدائی تیور واضح کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ احتیاط لازم ہے کہ استاد اس طرح کی لاحاصل بحثوں میں ہی الجھ کر نہ رہ جائے کہ اردو کا پہلا نشائیہ نگار کون ہے یا پہلا مضمون نگار کون ہے وغیرہ وغیرہ۔

جامعات میں بعض اوقات سرسید کی نثر کی تدریس کا آغاز ہی یہ بات منوانے سے ہوتا ہے کہ سرسید احمد خان اردو کے پہلے مضمون نگار ہیں اور ان کے مقابلے میں ماسٹر رام چندر کی اولیت کو چیلنج کرنے میں بہت سا وقت ضائع کردیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ بات علمی مقالہ نگاری اور ادبی مضمون نگاری کی تفریق کے تحت زیادہ موثر انداز سے واضح کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے جو طریقہ تدریس اختیار کرنا ہوگا وہ مطالعہ کا تقابلی طریقہ ہے جو عالمی سطح کی تدریس کا موثر اور غالب رجحان ہے۔ عالمی سطح کی تدریس میں تو دیگر زبانوں کے ادب سے تقابل کا بہترین اور سود مند طریقہ رائج ہے مگر ہمارے ہاں اس سے گریز برتا جاتاہے یا اس کا نہایت غیر مفید اور غیر علمی استعمال ہوتا ہے۔ ہم تقابل کے ذریعے کسی ایک کی برتری یا اولیت وفوقیت کو ثابت کرنے پر تُل جاتے ہیں اور تقابل کا بنیادی مقصدیعنی فن یا فکر کی تفہیم، وہ نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
بات ہورہی تھی ماسٹر رام چندر اور سرسید احمد خان کی نثر کی اور اُس کے تقابل کی ۔ ہم بجائے اس کے کہ یہ ثابت کرنے پر سارا زور صرف کردیں کہ سرسید احمد خان پہلے مضمون نگار تھے یا ماسٹر رام چندر، ہم دونوں کی نثری تحریروں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتا سکتے ہیں کہ ماسٹر رام چندر کی نثر علمی مقالہ نگاری کے ذیل میں آتی ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے علمی اور سائنسی مقالہ نگاری کی نثر کے ذریعے جس سے اردو بالکل ناآشنا تھی، ایک نئی زبان وضع کرنے کی کوشش کی۔ جبکہ سرسید نے علمی مضامین جو مقالہ نگاری کے ذیل میں آتے ہیں، لکھنے کے باوجود خالص ادبی مضامین بھی لکھے جو مضمون کی صنف میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم علمی مقالہ نگاری اور ادبی مضمون نگاری کی نثر میں فرق کر نے کے قابل ہوجائیں گے۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اس تدریس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ایک دو مقالے ماسٹر رام چندر کے بھی طلباءکو پڑھنے کے لیے دیے جائیں تاکہ وہ خودان میں فرق اور امتیاز کو نشان زد کرسکیں۔

تقابلی مطالعے کا ذکر چلا تو سرسید احمد خان کی نثر پڑھانے کا تیسرا لازمی قدم انگریزی نثر نگاروں سے سرسید کی نثر کا صحت مند تقابلی مطالعہ بھی ہے۔ سرسید احمد خان کی نثر پڑھاتے ہوئے انگریزی نثر سے اس کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ سرسید کی نثر کا وسیع تناظر میں مطالعہ ہوسکتا ہے بلکہ اردو کے طلباءکنویں کا مینڈک بننے سے بھی بچ سکتے ہیں اور اس طرح ان کی انگریزی نثر کا مطالعہ بھی بہتر بنایاجاسکتا ہے اور اردو طلبا پر یہ اعتراض کہ ان کی انگریزی کم زور ہوتی ہے (جو یقینا ہوتی ہے) بڑی حد تک دور کیا جاسکتا ہے۔
عام طور پر جامعات میں سرسید کی نثر کے حوالے سے طوطے کی طرح یہ بار بار رٹایا جاتا ہے کہ سرسید انگلستان گئے اور وہاں اسٹیل اور ایڈیسن کے اخبارات ”ٹیٹلر“ اور ”اسپیکٹیٹر“ سے متاثر ہوئے اور واپس آکر انہوں نے اسی طرز پر ”تہذیب الاخلاق“ کا اجرا کیا۔ حالاں کہ یہ بات بھی طلبا ثانوی درجوں سے مسلسل سنتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔ اور جامعات میں بھی بات یہیں سے شروع ہو کر یہیں پر ختم ہوجاتی ہے۔ جب کہ چاہیے تو یہ کہ جب آپ اسٹیل اور ایڈیسن کا اس قدر نام لے رہے ہیں تو طلبا کے سامنے وہ نمونے بھی پیش کریں جن سے سرسید کی مضمون نگاری کے متاثر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اساتذہ نے خود بھی صرف اسٹیل اور ایڈیسن کے نام سن رکھے ہوتے ہیں ان کے نمونہ نثر سے واقف نہیں ہوتے لہٰذا اپنے طلبا کو بھی بس یہ دو نام رٹا دینا کافی سمجھتے ہیں۔
اگر ہم تدریس کے عمل کو موثر بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ اس ذیل میں کم سے کم ایک یا دو مضامین خاص طور پر ایڈیسن کے ضرور طلباءکو پڑھنے کے لیے دیں۔ یہاں بھی ایک بات قابل غور ہے کہ صرف suggest نہ کریں طلباءکو مضامینprovide کریں اس سے طلباءکیtext reading کا تناسب بڑھے گا۔ اور یہ مضامین provideکرنے کے بعد انہیں یہ خود دیکھنے دیا جائے کہ کیا واقعی سرسید، ایڈیسن سے متاثر دکھائی دیتے ہیں؟ انھوں نے کہاں کہاں ایڈیسن کی پیروی کی اور کہاں کہاں سے وہ انحراف کرجاتے ہیں؟ مثلاً سرسید نے عام فہم زبان اور اخلاقی درس کے سلسلے میں تو ایڈیسن کی پیروی کی مگر ایڈیسن نے درس اخلاق کے لیے جو مزاج پر مبنی طرز اپنایا اور معاشرتی بداخلاقیوں پر ہنسنے ہنسانے کا جو اسلوب اختیار کیا وہ سرسید احمد خان کے ہاں شاذونادر ہی نظر آتا ہے۔ سرسید کا اسلوب زیادہ ترسنجیدہ اور مفکرانہ ہے۔ اور اس طرح کے اسلوب کی انگریزی مضمون نگاری میں مثال ڈاکٹر جونسن کی ہے لیکن ہمارے ہاں ڈاکٹر جونسن کا نام بالعموم نہیںلیا جاتا۔ اگر طلباءکو ڈاکٹر جونسن سے بھی متعارف کرایا جائے اور ایک آدھ تحریر اس کی بھی پڑھنے کو دی جائے تو طلباءبخوبی جان لیں گے کہ سرسید اور ڈاکٹر جونسن نے نثر کے تبلیغی رنگ کو کس قدر خوبی سے نبھایا ہے کہ وہ بلا تامل قاری کے دل میں اتر جاتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ طلباءیہ بھی جان لیں گے کہ بڑے بڑے لاطینی الفاظ استعمال کرنے سے ڈاکٹر جونسن کی نثر سرسید کی بہ نسبت زیادہ ثقیل ہوجاتی ہے جب کہ سرسید کی نثر اس حوالے سے ہلکی پھلکی رہتی ہے کیوں کہ ان کا مقصد ہی اردو نثر کو عربی اور فارسی کے بھاری بھرکم الفاظ سے محفوظ رکھنا تھا۔

پھر ایک نام فرانسِس بیکن کا ہے جس نے صحیح معنوں میں نثر کا یہ بنیادی اصول قائم کیا کہ نثر کو عقل کے قابو میں ہونا چاہیے اور جذباتی اور تصوراتی تاثرات کو ضرورت سے زیادہ نہ برتنا چاہیے۔ اگر دیکھا جائے تو سرسید کی نثر کا بھی یہی بنیادی تصور ہے۔ اس لیے اگر طلباءکو فرانسس بیکن کے ”الیسیز“ کا تعارف اور بنیادی موضوع بتایا جائے اور ساتھ اس کا ایک مضمون Of Studies خاص طور پر طلباءکو پڑھنے کے لیے دے دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
تقابل کے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا اور زیادہ موثر بنایا جاسکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرسید عام طور پر جذبات سے دور ہی رہتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود انھوںن ے جذبات کو اکثر جگہوں پر مناسب جگہ بھی دی ہے۔ لیکن ایڈیسن، جونسن اور فرانسس بیکن کی تحریروں کا جذبات سے واسطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جب ہم انگریزی ادب کی تاریخ میں ذرا آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ایک ایسا نثر نگار ملتا ہے کہ جس کے ہاں نثر میں جذباتی رنگ کو آمیز کرنے کا قدرتی منکہ موجود ہے۔ یہ نثر نگار چارلس لیمب ہے جس نے مضمون نگاری کی صنف کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ اس کےEssays of Elia مضمون نگاری کا شاہکار کہے جاسکتے ہیں۔اُس نے تو خیر مضمون کی صنف کی ہر صفت کو بڑے کمال سے برتا ہے۔ ہمیں یہاں چارلس لیمب اور سرسید احمد خان کی مضمون نگاری کا مکمل تقابل مقصود نہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ چارلس لیمب جس طرح مضمون میں جذبات کی رنگ آمیزی کرتاہے وہ کیسی ہے اور سرسید احمد خان کے ہاں وہ کس شکل میں ہے۔ سرسید احمد خان کا مضمون ’امید کی خوشی‘ اردو نثر میں اس حوالے سے اہم ہے اور جامعات کے نصاب میں بالعموم شامل بھی ہوتا ہے۔ دوسری طرف چارلس لیمب کا مضمونDream Children اس حوالے سے دنیائے نثر کا اہم ترین مضمون ہے اس لیے اگر طلباءکو یہ مضمون بھی پڑھنے کے لیے مہیا کیاجائے تو انہیں معلوم ہوسکے گاکہ سرسید کے ہاں کیسے کیسے اور کہاں کہاں کے رنگ موجود ہیں۔

یہاں تک ایک بات ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ جامعاتی سطح پر اردو کی تدریس کے دوران ہمیں طلباءکو عالمی سطح کی اہم زبانوں کے ادب عالیہ سے ضرور واقف کرانا چاہیے۔ اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ عالمی ادب کے اہم نام اور کام ہمارے لیے یکسر اجنبی نہ رہیں۔ اردو نثر نگاری کی تدریس میں بھی ہمارا یہ مطمح نظر ضرور ہونا چاہیے۔اس لیے اگر سرسیدکی نثر کی تدریس میں درج بالا تقابلی طریق برتا جائے تو دنیائے ادب کے اور خاص طور پر انگریزی ادب کے بڑے بڑے نثر نگاروں سے طلبا کی واقفیت لازم ہے۔

بہرحال سرسید کی نثر کی تدریس کا یہ بھی آخری قدم نہیں ہے۔ سرسید کی نثر کو تنقیدی نقطہ نظر سے بھی کلاس میں پیش کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بھی وہ عمل ہے جو ثانوی اور اعلیٰ ثانوی درجوں کی تدریس میں نہ تو ممکن ہوتا ہے اور نہ ضروری۔ لیکن جامعاتی سطح پر یہ تدریس کا لازمہ ہونا چاہیے تاکہ اس سطح کے طلباءکے تنقیدی شعور کی بہتر پرداخت ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے کلاس میں اس طرح کے سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ مثلاً سرسید کے مضمون ”گزرا ہوا زمانہ“ یا ”بحث و تکرار“وغیرہ میں آخر میں چند ناصحانہ فقروں نے مضمون کی صحت اور تاثر پر کیا اثر چھوڑا ہے؟ کیا وہ واقعی ضروری تھے یا صرف ایک ناصح مضمون نگار کی تشفی کا باعث ہیں؟ پھر یہ کہ سرسید کی نثر میں بعض جگہوں پر کیا ترکیبوں کا بھدا پن اور لفظوں کا عامیانہ پن محسوس نہیں ہوتا؟ کیا سرسید انگریزی الفاظ کا بغیر ضرورت کے جا بجا استعمال نہیں کرتے جس سے ان کی نثر کا لطف اور کیف متاثر ہوتا ہے؟وغیرہ وغیرہ۔ چوں کہ طلبا نہ صرف یہ کہ سرسید کی بیشتر تحریریں پڑھ چکے ہوں گے بلکہ انگریزی نثر کے شاہکاروں سے بھی آگاہ ہوچکے ہوں گے اس لیے وہ اس طرح کے سوالات پر بہتر اظہار خیال کرسکیںگے اور اس طرح ان کی تنقیدی تربیت کا سامان ہوسکےگا۔
اگر چہ مختصر وقت میں غیر افسانوی نثرکی تدریس کے لیے اس مقالے میں سرسید کی نثر کو ہی زیادہ بنیاد بنایا گیا ہے لیکن میں چند مزید لیکن انتہائی مختصر باتیں غالب کی نثر اور خاکہ نگاری کی تدریس کے حوالے سے بھی کرنا چاہوں گا۔
غالب کے خطوط اور اُن کی نثر بلاشبہ بے مثال ہے۔ بے شک انھوں نے اردو نثر میں سلاست، سادگی، مکالمہ نگاری، ظرافت، طنز اور جزئیات نگاری کو پہلی بار رواج دیا اور ادبی نثر کو زندہ و جاوید کردیا۔ ان سب کی تدریس اپنی جگہ پر لیکن جامعاتی سطح پر تدریس کے دوران غالب کی نثر کا وژن مزید بڑھایا جاسکتا ہے۔ غالب کی نثر کو مکتوب نگاری کے فن سے نکال کر اگر کچھ دیر کے لیے ناول کے تحت بھی دیکھا جائے تو دلچسپ بحث اٹھائی جاسکتی ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہوا تھا کہ جامعاتی سطح پر اصناف کی مبادیات پڑھا دینا ہی کافی نہیں بعض اوقات اصناف اور ان کی مبادیات کو چیلنج کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ غالب کے خطوط پڑھاتے ہوئے اس امر کی ضرورت ہے کہ انہیں مکتوب سے بڑھ کر ناول کی حیثیت سے بھی دیکھا اور پڑھا جائے۔ یہاں میں ایک دو اور مثالیں انگریزی ادب سے دینا چاہوں گا۔ اٹھارویں صدی میں انگریزی ادب میں خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوئے جنہوں نے مکتوب نگاری کی نئی صنف ادب کا اضافہ کیا ان میں ایک مجموعہ ہو زلیس والنول کے خطوط کا بھی تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ ان خطوط میں اُس زمانے کی زندگی کے حالات کسی تاریخ یا ناول سے بہتر انداز میں پیش ہوئے ہیں۔ اگر ہوزیس والنول کے خطوط کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے تو غالب کے خطوط کو کیوں نہیں؟ یہ بھی خاطر نشان رہے کہ والیول کے عہد میں ناول کی صنف وجود میں آچکی تھی جبکہ غالب جس وقت خطوط لکھ رہے تھے اس وقت اردو میں ناول ابھی منظر عام پر نہیںآیا تھا۔ لہٰذا ہمار ے لیے ان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس عہد کی تہذیبی اور سیاسی تاریخ اور معاشرت ہمیں غالب کے خطوط ہی میں نظر آسکتی ہے۔ ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ سیموئل رچرڈ سن کی جس کتاب کے لیے پہلے پہل ناول کالفظ استعمال ہوا یعنیPamela or Virtue Rewarded وہ بھی خطوط کا ہی مجموعہ تھی۔

خاکہ نگاری کے ذیل میں ایک بات نہایت اہم ہے۔ ہماری جامعات کے نصاب میں بالعموم کسی ایک خاکہ نگا ر کے ہی خاکوں کا مجموعہ یاانتخاب شامل ہوتا ہے جو میرے خیال سے اس لیے درست نہیں کہ اس طرح اردو خاکہ نگاری کے مختلف اور متنوع اسالیب نثر سے طلباءواقف نہیں ہوپاتے۔ ضروری ہے کہ نصاب میں اردو کے بہترین خاکوں کا ایک انتخاب شامل کیا جائے۔ مثلاً اس ضمن میں ڈاکٹرانور احمد کی کتاب ’اردو کے دس یادگار خاکے‘ یا مبین مرزا کے مرتبہ خاکے ’اردو کے بہترین شخصی خاکے‘ کی جلد اول شامل کی جاسکتی ہے اس طرح طلباءبیک وقت مختلف نثر نگاروں کے اسلوب نگارش سے آگاہ ہوسکیں گے۔ پھر یہ کہ اسی صورت طلباءکو پرانی اور نئی خاکہ نگاری میں تفریق کی تدریس، جو کہ بہت ضروری ہے،موثر انداز سے کی جاسکتی ہے۔عصمت چغتائی کے ”دوزخی“ اور منٹو کے خاکوں کے ذریعے جدید اردو خاکے کے اطوار واضح کیے جاسکتے ہیں۔ اور اسی صورت انہیں شخصیت نگاری اور خاکہ نگاری کا باریک فرق بھی سمجھا یا جاسکتا ہے۔

طنز و مزاح کے ذیل میں بھی نصاب میں صرف شوکت تھانوی یا پطرس بخاری کے ہی مضامین یا مشتاق احمد یوسفی کی ’آب گم‘ شامل کرنے کی بجائے طنز و مزاح پر مبنی مختلف نثر نگاروں کی تحریروں کا انتخاب نصاب میں شامل ہونا چاہیے تاکہ طنز و مزاح کے بھی مختلف اسالیب نثر سے طلبا کی واقفیت ہوسکے۔
جامعات میں تدریس کے دوران اصناف کی تاریخ اور اس کے پس منظر پر عام طور پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی زور صرف کیا جاتا ہے اور اس بات پر توجہ کم یا بالکل نہیں دی جاتی کہ زیرِ مطالعہ صنف برتنے کا طریقہ کیا ہے اور یہ کیوں اور کیسے برتی جاتی ہے؟ اس کی ضرورت غیر افسانوی نثر کی تدریس میں نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اساتذہ کو اس ضمن میں توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے اور اس کے لیے ایک دو عملی کام کروانے چاہئیں۔ مثلاً ایک تو ہر طالب علم کو ایک ایک نثری فن پارہ تنقیدی رائے کے لیے دیا جائے اور اسے تحریری رائے دینے کا پابند بنایا جائے اس کے علاوہ طلباءکو کم سے کم ایک ایک نثری فن پارہ تخلیق کرنے کی تحریک بھی دی جائے اس سے تدریس کے عمل کو خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

آخر میں ایک بات یہ کہ اساتذہ کو کلاس میں پڑھاتے ہوئے یہ احساس برابر رہنا چاہیے کہ وہ نثر بول رہے ہیں اور طلبا میں بھی یہ احساس اجاگر کرانا چاہیے کہ وہ نثر سن اور بول رہے ہیں تاکہ انہیںمشہور فرانسیسی ڈرامہ نگار مولیئر کے کردار کی طرح اس بات کا احساس چالیس برس بعد نہ ہو کہ وہ جو کچھ بولتے اور سنتے رہے ہیں وہ ہی نثر ہے۔

Share this:

Post a Comment

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes