نیا سال ’’کیوں‘‘ مبارک ہو ؟

نیا سال ’’کیوں‘‘ مبارک ہو ؟


دسمبر کا مہینہ غم درد اور مایوسی کا مہینہ سمجھا جاتا ہے خصوصاً پاکستان کے حوالے سے، کیونکہ ظلم وستم اور دہشت گردی کے بڑے واقعات اسی مہینے میں پیش آئے لیکن دوسری طرف یہی دسمبر نئے سال کی صبح کے لیے آخری رات کی مانند سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دسمبر شروع ہوتے ہی نوجوان حرکت میں آتے ہیں اور نئے سال کی مبارکباد کاسلسلہ شروع ہوتا ہے۔یہ نظارے موجودہ دور کے ایک معروف ایجاد فیس بک پر روز دیکھے جاسکتے ہیں۔ہمارے نوجوان اس سلسلے میں بڑے جذباتی واقع ہوئے ہیں اور وہ اس روایت کو فرض سمجھ کر ایسے مناتے ہیں جیسے عید،شادی یا کوئی بڑی کامیابی کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ نئے سال کی آمد پر خوشی ہم کیوں مناتے ہیں حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ایک مغربی روایت ہے جو تہوار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔یہاں میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ مجھے مغرب سے کوئی نفرت نہیں مگر جب ہم اپنا موازنہ ان کے ساتھ کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ہم بیوقوف ہیں جو اُن کے ہر عمل کی تقلید کرتے ہیں اورپھر سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کے شانہ بشانہ چل رہے ہیں۔کیونکہ مغربی اقوام موجودہ دور کے ترقیافتہ اقوام کہلاتی ہیں اور وہ تمام مسائل جن کی وجہ سے ہم مشکلات اور مصائب کا شکار ہیں وہ حل کر چکی ہیں۔اور جب وہ مشکلات اور تکالیف کا شکار ہیں نہیں تو وہ کیوں نہ خوشیاں منائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں ہر مہینے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈا جاتا ہے کہ سیرو تفریح اور سکون و راحت کا موقع ہاتھ آئے.اب ہم ایک نظر اپنے معاشرے پر ڈالتے ہیں کہ ہم کب خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ہمارے لیے سب بڑا خوشی کاموقع عیدین پر ہوتا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عید کے روز ہم یہ برملا سنتے رہے ہیں کہ یار عید کا مزہ نہیں اور اکثر لوگ آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یار آج کل کتنی سہولتیں ہیں، اور تمام نعمتیں موجود ہیں مگر دل پریشان اور بے سکون ہوتا ہے۔ امیر و غریب سب پریشانی اور ٹنشن کا شکار ہیں۔هم نے گزشتہ درجنوں سال دہشت گردی ،قتل وغارت گری اور اسلام کے نام پر ایک دوسرے کے خلاف جہاد کرنے میں گزارے تو ہم نئے سال کی خوشیاں کیوں منائیں اور کیسے منائیں؟ اور پھر دسمبرجو سال کاآخری مہینہ ہوتا ہے میں آرمی پبلک سکول کا بد ترین واقعہ پیش آیا تھا جس میں بچوں پر ہونے والے ظلم اور بربریت سے فرعون ، نمرود،ہلاکو خان اور ہٹلر جیسے بدنام ظالموں کی روحیں بھی کانپ چکی ہونگیں۔ اور ہم پھر بھی نئے سال کے لیے جھوٹی خوشیاں مناکر مبارکباد دیتے ہیں۔دسمبر ہی کیا ہم نے گزشتہ پندرہ سال مسلسل آگ اور خون میں رہ کر لاشیں اٹھانے میں گزارے مگر ہمارے نوجوان ابھی سے مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ نئے سال کی خوشیاں مبارک ہو حالانکہ ابھی نیا سال مشکوک اور وہم وگمان کے اندھیروں میں چھپا ہوا ہے کیونکہ’’ امن‘‘ پسند امریکہ ابھی تک افغانستان میں موجود ہے اور جب تک امریکہ کسی ملک میں تشریف فرما ہوتا ہے وہاں امن و امان اور سکون کی زندگی ایک خواب ہی ہوتا ہے جس کا ثبوت عراق،شام، افغانستان، یمن بلکہ تمام اسلامی ممالک میں سب کے سامنے ہے۔دوسری طرف بھارت بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں جو امریکہ بہادرکے ایما پر افغانستان میں اپنی موجودگی ضروری سمجھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے چاروں جانب خوف اور دہشت گردی کے مہیب سائے نظر آرہے ہیں مگر ہمارے نوجوان اب بھی کہتے ہیں کہ نیا سال مبارک ہو بلکہ وہ تو اس سے بھی آگے جاکر کہتے ہیں کہ نئے ساک کی خوشیاں مبارک ہوں ارے میرے ناداں دوستو! کونسی خوشیاں اور کہاں کی خوشیاں ؟ ہم تو ابھی تک جواں مرگ جوانوں کے جنازوں سے فارغ نہیں ہوئےهمارے کانوں میں تو یتیموں،بیواؤں اور بے سہارا رہنے والے والدین کی آہ فغان ابھی تک گونج رہی ہیں۔تو ایسے میں نئے سال کے لیے ہم کیوں خوش ہوں۔ایک اہم بات یہ کہ مغربی ممالک اگر خوشیاں منائیں تو وہ حق بجانب ہیں کیوں وہ تمام مسائل جن کے لیے روز روز یہاں پر دھرنے،جلسے جلوس اور مظاہرے کیے جاتے ہیں وہاں پر حل کیے جاچکے ہیں۔کرپشن،جھوٹ،منافقت اور اپنے ہی عوام کو بیوقوف بنانا ہمارے سیاستدانوں کا کمال ہے جن پر وہ فخر بھی کرتے ہیں کیونکہ اُن کو پتہ ہے کہ یہ عوام ویسے ہی بوقوف رہیں گے اور ہمیں ووٹ دیتے رہیں گے یہی وجہ ہے کہ ہماری اشرافیہ بھی مغرب کی تقلید کرتی ہیں اور نئے سال کی خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ وہ بے حسی میں درجہ اول پر ہیں۔گزشتہ سال کا اگر ہم بغور جائزہ لیں تو کوئی مہینہ ایسا نہیں ہوگا جس میں کوئی المناک واقعہ نہیں ہوا ہو۔بلوچستان میں کتنے دردناک واقعات پیش آئے جن میں شیعہ،سنی اور عیسائی سب کو نشانہ بنایا گیا۔مساجد اور جنازوں تک کو نہیں بخشا گیا۔اور سال 2017 کے آخری دن جلال آباد میں ایک جنازہ کو نشانہ بنایا گیاجس میں اٹھارہ افراد شہید کر دیے گئے۔اسی طرح مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور سکولوں میں دہشت گردی کی گئی جن سے انسانیت لرز اٹھی۔تو ایسے میں ہم کس منُہ سے بولیں کہ نئے سال کی خوشی مبارک ہو۔ بد قسمتی سے نہیں بلکہ بد حکمتی سے تمام عالم اسلام شدید دہشتگردی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔جبکہ الزام بھی مسلمانوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔امریکہ بہادر کا دوہرا رویہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سبب ہے جس کا ایک ثبوت بیت المقدس کو اسرائیلی دارلحکومت تسلیم کرنا ہے۔دوسرا ثبوت افغانستان میں لاکھوں فوجوں اور یورپی سپورٹ کے باوجود امن قائم نہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ افغانستان میں امن قائم نہیں کرنا چاہتا کیونکہ امن قائم ہونے سے امریکہ کو واپس جانا ہوگا جبکہ وہ واپس نہیں جاناچاہتا۔اور واپس نہ جانے کے پیچھے کئی اغراض اور مقاصد ہیں۔افغانستان اور اس سے ملحقہ پختون بیلٹ گزشتہ تیس 30سالوں سے جنگ اور آگ و خون کی لپیٹ میں ہے جس سے اب تک لاکھوں قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔تو ایسے میں ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ نئے سال کی خوشیاں مبارک ہوں۔ہمارے نوجوان نئے سال کی رات شہروں بازاروں اور خصوصاً سمندر کے ساحل پر نکل پڑے جہاں انہوں نے ناچ گانوں اور بد مستی کا مظاہرہ کیا اسی دوران ہمارا میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔31دسمبر کی رات آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور جاپان سے آتش بازی اور رنگارنگ پروگرام پیش کرتا رہا اور یہ سلسلہ یکم جنوری تک جاری رہا کیونکہ یورپی جشن اور رنگا رنگی بھی دکھانا ضروری تھا۔میرا مقصد یہ نہیں کہ نئے سال کی مبارکباد نہیں دینا چاہیے کیونکہ مبارباد دینے کا مقصد دعا دینا ہے کہ نیا سال بابرکت ہو مگر اس میں خوشیاں منانا اور ڈانس مستی کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں کیونکہ سال گزرنے سے ہماری زندگی کا ایک سال کم ہو جائے تو خوش کیسے ہو سکتے ہیں۔۔۔

Share this:

Post a Comment

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes