خاکہ نویسی ( اُردو خاکہ نگاری)

خاکہ نویسی  ( اُردو خاکہ نگاری)

خاکہ نویسی 

 (انگریزی: Sketch) کے لغوی معنی ڈھانچہ بنانا یا مسودہ تیار کرنا ہیں۔ جبکہ ادبی نقطہ نظر سے خاکہ شخصیت کی ہو بہو عکاسی کا نام ہے، اس خاکہ نگاری میں نہ صرف شخصیت کی ظاہری تصویر کشی کی جاتی ہے بلکہ باطن کا بھی احاطہ کیا جاتا ہے۔


تعریف

خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں کسی شخص کے حقیقی خدوخال قارئین کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں۔ خاکہ نگاری میں ایک جیتی جاگتی حقیقی شخصیت کی دلکش اور دلچسپ پیرائے میں تصویر کشی کی جاتی ہے۔ خاکہ نگار واقعات ومشاہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات و قیاسات کو بھی شامل کرتا ہے۔ ایک کامیاب خاکہ نگار کی نگاہ اس مقام کو پا لیتی ہے جس مقام تک عام خاکہ نویسوں کی نگاہ نہیں پہنچتی۔

ماہرین کی نظر میں

خاکہ کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔ (نثار احمد فاروقی)
سوانح نگاری کی بہت سی صورتیں ہیں۔ ان میں سے ایک شخصی خاکہ ہے۔ یہ دراصل مضمون نگاری کی ایک قسم ہے۔ جس میں کسی شخصیت کے ان نقوش کو اجاگر کیا جاتا ہے جن کے امتزاج سے کسی کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ (آمنہ صدیقی)
خاکہ نگاری ادب کی ایک صنف ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہ راست کھینچی جاتی ہیں کہ ان کے ظاہر اور باطن دونوں قاری کے ذہن نشین ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے بلکہ خود شخصیت کو دیکھا بھالا ہو۔ (محمد حسین)[1]
خاکہ نگاری کی بڑی اور اولین شرط میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ معمولی کو غیر معمولی بنادے بڑے کو کتنا بھی بڑا دکھانا آسان ہوگا بہ نسبت اس کے کہ چھوٹے کو بڑا دکھایا جائے فن اور فن کار کی یہ معراج ہوگی۔ (رشید احمد صدیقی)

اُردو خاکہ نگاری

اُردو لغات میں خاکہ کے معنی پنسل سے نقشہ یا ڈھانچا بنانے، کسی کی تصویر کو لفظوں میں بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ خاکہ کو انگریزی میں سکیچ یا پن پورٹریٹ کہتے ہیں۔ دراصل خاکہ میں کسی شخصیت کے چند پہلو اُجاگر کیے جاتے ہیں جو اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں پیدا کر دیتے ہیںجو ممدوح شخصیت کے منفرد پہلو نمایاں کرتی ہے۔ اسی لیے ڈاکٹر عطش درانی جو اصطلاحات کے ماہر ہیں انھوں نے اسے شخصیہ کا نام دیا ہے۔

اُردو ادب میں خاکہ نگاری یا شخصیہ کے آغاز مرزا اسد اﷲ خان غالب کے ذاتی اور احباب کے تبصروں سے لے کر شاہد حنائی کی تازہ کتاب ”اُردو خاکہ نگاری (فن، تاریخ، تجزیہ)“ تک کوئی مروج اور مستند تعریف اور اصول و ضوابط نہیں ملتے۔ ہر خاکہ نگار اور محقق نے اپنے اپنے طور پر جو تعریف کی وہ مذکورہ بالا سطور کے قریب ترین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاکہ نگاری اور شخصیہ کا کینوس وسیع تر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کتابوں کے دیباچے اور شخصی مضامین بھی خاکہ نگاری کی صنف میں شامل ہیں۔شاہد حنائی سینئر لکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کی شہرت خاکہ نگار، مترجم اور مرتب پہلے ہی سے قائم ہے۔ گو ان کا تعلق گولارچی ضلع بدین سندھ سے ہے اور آج کل غمِ روزگار کی خاطر کویت میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اپنے گاﺅں کے ساتھ کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی شہر سے خصوصی محبت ہے۔ کویت سے جب بھی پاکستان آتے ہیں تہلکہ برپا کر دیتے ہیں ۔ اس دفعہ بھی انھوں نے اُردو خاکہ نگاری کی تاریخ اور فن کا تجزیاتی مطالعہ پیش کر کے اردو ادب کی صنف خاکہ نگاری کی طرف لوگوں کو متوجہ کر دیا ہے۔ شاہد حنائی نے اس کتاب کا انتساب معروف ادیبہ، کالم نویس، انسانی حقوق کی علمبردار اور اپنی پیر و مرشد زاہد حنا کے نام تحریر کیا ہے جن سے خصوصی نسبت کی بدولت انھوں نے اپنے نام شاہد کے ساتھ حنائی تحریر کیا ہے اور شاہد حنائی کے نام سے معروف ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں پیش لفظ کے بعد انتیس (29) مضامین اور مقالات کی ایسی ترتیب ہے کہ خاکہ نگاری کی پوری تاریخ نمایاں ہو جاتی ہے۔ 359 صفحات پر مشتمل اس حصے میں شاہد حنائی کے پیش لفظ اور پانچ تحقیقی

مضامین میں چند متنازعہ خاکے، پاکستان میں خاکہ نگاری ایک جائزہ، پاکستان میں خاکہ نگاری کا جائزہ سال 2013 ء، خاکہ نگاری اور امکانات، خاکہ نگاری کی الجھنیں، خاکہ نگاری کی پوری تاریخ پر بحث کرتے ہیں۔ڈاکٹر بشیر سیفی کے مقالے فن خاکہ نگاری، اُردو میں خاکہ نگاری (آزادی سے قبل)، پاکستان میں خاکہ نگاری، گل ناز بانو کے مقالات خاکہ کیا ہے، خاکہ کے فنی لوازمات، خاکہ نگاری کے اوصاف اور ڈاکٹر ابوسلمان شاہ جہاں پوری کے مضامین خاکہ نگاری ایک صنف ادب، خاکہ نگاری کی قسمیں شامل ہیں۔ایک ایک مضمون لکھنے والوں میں شجاع احمد زیبا کا خاکہ نگاری کا ارتقائی مطالعہ، ڈاکٹر صابرہ سعید کا تحقیقی مضمون اُردو میں خاکہ نگاری کا تاریخی جائزہ، یحیٰی احمد کا اُردو میں خاکہ نگاری، پروفیسر شمیم حنفی کا مضمون آزادی کے بعد دہلی میں اُردو خاکہ، طیب انصاری کا پیش رفت، مبین مرزا کا اُردو کے بہترین شخصی خاکے، خاطر غزنوی کا مضمون اُردو میں خاکہ نگاری، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم کا تحقیقی مضمون خاکہ نگاری 1948 ءتا 1985ئ، ڈاکٹر غلام حسین اظہر کا خاکہ نگاری 1970ءتا 1980ئ، ڈاکٹر محمد عباس پندرہ سالہ خاکہ نگاری، ماجد قاضی حسنِ سراپا، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا تحقیقی مضمون خاکہ نگاری اور مزاح ،محمد حسین جامی دور حاضر میں خاکے کی تہذیبی سماجی اہمیت، سیدہ نجمہ واحد کا مضمون خاکہ نگاری یا شخصیہ نگاری ،محمد عالم خان خاکہ نگاری میں غیر ادبی روش اور ممتاز رفیق ادب میں خاکہ نگاری کا مسئلہ ایسے مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین و مقالات مذکورہ کتاب کی شان میں اضافہ کے موجب ہیں۔شاہد حنائی نے خاکہ نگاروں اور ممدوح شخصیات جن کے خاکے تحریر کیے گئے ایک طویل فہرست مہیا کر دی ہے۔

یہ کتاب خاکہ نگاری کی صنف سے شاہد حنائی کی محبت کا بین ثبوت ہے۔ اس سے پہلے ان کی خاکوں پر مشتمل دو کتب چہرہ نما اور فروزاں فروزاں عالم بھی شہرت حاصل کر

چکی ہیں۔اُردو خاکہ نگاری (فن، تاریخ، تجزیہ) صنف خاکہ نگاری میں انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ کتاب کے آخری حصے میں جرائد اور کتابی سلسلوں کے شخصیات نمبر اور خاکوں کی مرتبہ کتب شامل ہیں جبکہ تحقیق و تنقید پر مشتمل کتب کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ 576 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے آخری حصوں میں کچھ کتب کی نشاندہی پر شاہد حنائی نے کرنل سید مقبول حسین کی 55 خاکوں پر مشتمل ”کہکشاں“ کے لیے فوراً مصنف سے رابطہ قائم کر لیا ہے جبکہ تاج سعید کی مرتبہ کتاب ہم قلم مطبوعہ 1977 ءاور تاج سعید کے ساتھ زیتون بانو کا کتابی سلسلہ جریدہ کی تیسری اور چوتھی کتب مطبوعہ 1985 ء،1986 ءقابل ذکر ہیں جو مکتبہ ارژنگ پشاور سے شائع ہوئی ہیں۔ آخر الذکر تین کتب مشتاق قمر کی تحریروں کی تلاش و جستجو کے دوران میری نظر سے گزری ہیں اور ان میں مشتاق قمر کے خاکے بھی شامل ہیں جو انشاءاﷲ ایک الگ کتابی شکل میں منظر عام ہوں گے۔


خاکہ نگاری

اردو میں خاکہ نویسی ایک ایسی صنف نثر ہے جس کی عمر زیادہ نہیں۔ بہت پہلے سے بعض مختصر تحریریں اس انداز سے لکھی جاتی رہی ہیں جنہیں مختصر خاکوںکے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اردو کے تذکرہ نگاروں نے بعض شاعروں کے کلام کے ساتھ ان کی شخصیتوں کے بارے میں بھی کچھ ایسی معلومات فراہم کی ہیں جنہیں ہم اردو میں خاکہ نگاری کے ابتدائی نقوش سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ان تذکروں میں قدرت اللہ قاسمؔ کا ’’مجموعۂ نغز‘‘سعادت خاں ناصرؔ کا ’’تذکرۂ خوش معرکۂ‘‘ زیبا، اور مولوی محمد حسین آزادؔ کا تذکرہ ’’آبِ حیات‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مولوی محمد آزاد پہلے تذکرہ نگار ہیں جنہوں نے اردو میں انتہائی مفصل انداز میں شعراکے انتہائی قلمی مرقعے تیار کیے ہیں۔ بحیثیت خاکوں کے آزاد کی ان تحریروں میں ذرا سی کسر بس یہی باقی رہ گئی کہ یہ سارے قلمی مرقعے ہم عصروں کے نہیں ہیں جبکہ خاکہ نگاری کی پہلی شرط شخصیت کا ہم عصر ہونا ہے۔مولوی محمد آزاد اعلیٰ درجے کے انشا پرداز بھی تھے، اس لیے بعض شخصیتوں کو دل چسپ بنانے کے لیے وہ اپنی انشا پردازی کے زور میں شاعروں کے بارے میں ایسے واقعات اور لطیفے بیان کرتے ہیں جن میں سے بیشتر خود ان کی اختراع ہوتے ہیں۔ خاکہ نگار جس شخص کا خاکہ لکھتاہے اس کی شخصیت کو وہ اپنے ڈھنگ سے دیکھتا ہے۔ اس میں اس کی اپنی پسند اور ناپسندبھی منعکس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی شخصیت پر لکھے گئے مختلف لوگوں کے خاکے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور انہیں ایسا ہونا بھی چاہیے۔ تاہم ایک اچھے خاکے کی بنیادی خوبی پھر بھی یہی ہے کہ وہ حق و صداقت پر مبنی ہو۔ اس میں ایسا نہ لگے کہ جان بوجھ کرکسی کا مضحکہ اڑایا جا رہا ہے یا جھوٹی ستائش کی جارہی ہے۔ انہیں تمام وجوہ سے مولوی محمد حسین آزاد کو پہلا کامیاب خاکہ نگار ہونے کا شرف حاصل نہیں ہو سکا۔ ہاں! خاکہ نگار تھوڑے بہت مبالغے سے کام لے کر خاکے کو دل چسپ بناسکتا ہے اور اردومیں ایسے خاکوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مجتبیٰ حسین اور یوسف ناظم جیسے مزاح نگاروں نے خاصی تعداد میں خاکے لکھے ہیں، جن میں مزاح ہے اور اکثر مبالغے سے بھی کام لیا گیا ہے، لیکن یہ مبالغہ شخصیت کو زیادہ دل چسپ بنا دیتا ہے اور پڑھنے والے کے ذہن پر بار نہیں بنتا۔ ٭…٭…٭


Share this:

3 comments :

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes