قصیدہ
“لفظ قصیدہ عربی لفظ قصد سے بنا ہے اس کے لغوی معنی قصد (ارادہ ) کرنے کے ہیں۔ گویا قصیدے میں شاعر کسی خاص موضوع پر اظہار خیال کرنے کا قصد کرتا ہے اس کے دوسرے معانی مغز کے ہیں یعنی قصیدہ اپنے موضوعات و مفاہیم کے اعتبار سے دیگر اصناف ِ شعر کے مقابلے میں وہی نمایاں اور امتیازی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی جسم و اعضاءمیں مغز کو حاصل ہوتی ہے فارسی میں قصیدے کو چامہ بھی کہتے ہیں”۔
اردو ادب میں قصیدہ فارسی سے داخل ہوئے۔ اردو میں میرزا رفیع سودا اور ابراہیم ذوق جیسے شعرا نے قصیدے کی صنف کو اعلی مقام تک پہنچایا۔ قصیدہ ہیئت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے بحر شروع سے آخر تک ایک ہی ہوتی ہے پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی اشعار کے آخری مصرعے ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔ مگر قصیدے میں ردیف لازمی نہیں ہے۔ قصیدے کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے۔ بعض اوقات درمیان میں بھی مطلعے لائے جاتے ہیں ایک قصیدے میں اشعار کی تعداد کم سے کم پانچ ہے زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اُردو اور فارسی میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے بھی ملتے ہیں۔
اجزاء
تشبیب ،، گریز ،، مدح ،، دعائیہ
تشبیب
قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب کہلاتا ہے۔ اس میں شاعر عشق و عاشقی کی باتیں، شباب جوانی کے قصے اور فضا کی رنگینی کا حال بیان کرتا ہے۔
گریز
تشبیب کے بعد قصیدے میں گریز کی منزل آتی ہے گریز کی یہ خوبی قرار دی گئی ہے کہ تشبیب کے بعد ممدوح کا ذکر نہایت ہی فطری اور موزوں طریقے سے کیا جائے یعنی بیان میں ایک فطری مناسبت، تسلسل اور ربط قائم رہے۔
مدح
قصیدے کا سب سے ضروری جز مدح سرائی ہے۔ اور اسی پر قصیدے کی بنیا د ہوتی ہے۔ عربی قصائد میں مدح حقیقت اور واقعیت سے بھر پور ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک عرب شاعر کو کسی نے اپنی مدح پر مجبور کیا تو اس نے جواب دیا کہ ” تم کچھ کرکے دکھائو تو میں تمہاری مدح کروں۔“ مگر فارسی اور اردو میں مدح کا معیار خیال آفرینی اور مبالغہ ہوتا ہے۔ یہاں ممدوح کی ذات میں مثالی خصوصیات فرض کرکے بیان کی جاتی ہیں۔ قصیدوں میں مدح کا حصہ اکثر تکرار مضامین کی وجہ سے بے لطف ہو جاتا ہے۔
دعائیہ
قصیدے کا آخری حصہ دُعائیہ ہوتا ہے اس میں ممدوح کو بلند اقبال اور درازی عمر کی دعا دی جاتی ہے۔ بعض اوقات شاعر اپنی اچھی یا بری حالت ظاہر کرتا ہے۔ دعا کے ذریعے قصیدہ گو اپنا صلا بھی طلب کرتا ہے۔ دعا قصیدے میں نازک مقام ہے اور قصیدے کی کامیابی کا انحصار زیادہ تر دعا پر ہی ہوتا ہے اور قصیدے کے مقطع میں شاعر اپنا تخلص لاتا ہے۔
قصیدہ سے کیا مراد ہے؟
کہتے ہیں۔قصیدہ شعری صنف کے اعتبار سےعربوں کی ایجاد ہے۔ Eulogy قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کو انگریزی میں
قصیدہ لفظ قصد سے ہےجس کے معنی ارادہ کرنے کے ہیں۔بعض روایات کے مطابق اس کے معنی مغز کے بھی ہیں۔ مراد یہ ہے کہ قصیدہ تمام اصنافِ شعری میں وہی حیثت رکھتا ہے جو انسانی جسم میں سر یا مغز کی ہے۔ اس کوفارسی میں چامہ کہتے ہیں۔ یوں تو قصیدہ کے اصطلاحی معنی کسی زندہ شخصیت کی تعریف کرنا کے ہیں۔اسکو جنگی ادوار میں سرداروں اور قبائلی حکام کی تعریف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔عرب کی فتوحات کی بدولت یہ صنفِ شاعری ایران میں آئی اور پھر یہاں سے برصغیر میں منتقل ہوتی چلی گئی۔
قصیدہ دراصل درباری طرز کی شاعری ہے جس میں شان وشوکت، جاہ و جلال، جوش اور ولولے کو امتیازی حیثت حاصل ہوتی ہے۔ شاہی درباروں میں قصیدے کو ہر دلعزیزی حاصل ہوئی مگر مغلیہ دور کے زوال کے ساتھ ہی اس صنفِ شاعری کا رنگ کچھ پھیکا پڑنا شروع ہو گیا۔اور یہ صنف حمد و نعت میں زم ہوتی چلی گئی۔
ہیت کے اعتبار سے قصیدہ غزل سے ملتی جلتی صنف ہے۔اس کی بحر شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی ہوتی ہے۔اس کا آغاز مطلع سے ہوتا ہے اور ردیف لازم نہیں ہوتا۔اس کے کم از کم اشعار کی تعداد پانچ ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ اشعار کی تعداد مقرر نہیں۔اردو اور فارسی زبان میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے ملتے ہیں۔قصیدہ کے پانچ اہم اجزاء یہ ہیں؛
تشبیب؛
تشبیب کے معنی شباب کے ہیں۔ یہ قصیدہ کا ابتدائی حصہ ہے۔ اس میں صرف نفسِ مضمون باندھاجاتا ہے۔
گریز؛
یہ قصیدے کا دوسرا جز ہے جس میں لکھاری اصل موضوع کی طرف توجہ دلاتا ہے۔قصیدہ اور گریز میں ربط ہونا بے حد ضروری ہے کیونکہ اس کی بدولت ہی ایک قصیدہ شاندار تصور کیا جاتا ہے۔
مدح؛
اس حصہ میں قصیدہ گو اس شخصیت کی تعریف بیان کرتا ہےجس پر قصیدہ لکھا جا رہا ہوتا ہے۔اس کی شجاعت، بہادری کے پل باندھے جاتے ہیں اور بعد میں اس کے ساز و سامان کی بھی تعریف کی جاتی ہے۔
طلب؛
اس جزو میں شاعر ممدوع سے اپنی بیان کی گئی مداح کا صلہ طلب کرتا ہے۔
دعا؛
یہ قصیدے کا آخری جزو ہے اس میں شاعر ممدوع کے لیے دعا طلب کرتا ہے۔
Post a Comment