مرزا غالب کا یوم پیدائش

مرزا غالب کا یوم پیدائش




ہوگا کوئی ایسا بھی کہ غالب کو نہ جانے، 
جی ہاں آج اِن ہی مرزا غالب کا یوم پیدائش ہے، 
جن کی شخصیت اپنی مثال آپ ہے۔

ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور

اور یہ دعویٰ ایسا کچھ غلط بھی نہیں تھا، اس لیے کہ غالب کو مشکل سے مشکل موضوعات کو نہایت سادگی اور سلاست کے ساتھ بیان کردینے کے فن پر کمال حاصل تھا۔

اردو اور فارسی کے عظیم شاعر اسد اللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔

مغل بادشاہ کی طرف سے نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا ہوئے، غالب ان کا تخلص تھا اور اس کا اثر ان کے کلام پر بھی رہا، کوئی انہیں مغلوب نہ کر سکا۔

پانچ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد غالب اپنے چچا کے ہاں رہنے لگے تاہم چار سال بعد چچا کا سایہ بھی ان کے سر سے اٹھ گیا۔

غالب نے لڑکپن سے ہی شعر کہنا شروع کردیئے تھے، شادی کے بعد غالب دہلی منتقل ہوگئے، جہاں انھوں نے ایک ایرانی باشندے عبد الصمد سے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔

غالب اردو اور فارسی میں شعر کہتے تھے تاہم فارسی شاعری کو زیادہ عزیز جانتے تھے۔

نقادوں کے مطابق غالب پہلے شاعر تھے جنھوں نے اردو شاعری کو ذہن عطا کیا، غالب سے پہلے کی اردو شاعری دل و نگاہ کے معاملات تک محدود تھی، غالب نے اس میں فکر اور سوالات کی آمیزش کرکے اسے دوآتشہ کردیا۔

ان کی شاعری میں انسان اور کائنات کے مسائل کے ساتھ محبت اور زندگی سے وابستگی بھی بڑی شدت نظر آتی ہے، جس نے اردو شاعری کو بڑی وسعت دی ہے۔

غالب کی شاعری، رومانیت، واقعیت، رندی، تصوف، شوخی و انکساری جیسی متضاد کیفیتوں کا حسین امتزاج ہے۔

انہوں نے زندگی کو کھلے ذہن کے ساتھ مختلف زاویوں سے دیکھا اور ایک سچے فنکار کی حیثیت سے زندگی کی متضاد کیفیتوں کو شاعری کے قالب میں ڈھالا۔

غالب نے اپنے ذہن کے تمام دروازے کھلے رکھے، ایک خالص تجرباتی شاعر کی حیثیت سے وہ ہر مقام پر رنگ و آہنگ بدلتے رہے۔

ان کی شاعری زندگی کی کشمکش کی پروردہ ہے اسی لئے ان کی شاعری میں جو رنج و الم ملتا ہے اور جس تنہائی، محرومی، ویرانی، ناامیدی کی جھلک ملتی ہے، وہ صرف ذاتی حالات کا عکس نہیں بلکہ اپنے عہد، سماج اور ماحول کی آئینہ دار ہے۔

آخری عمر میں غالب شدید بیمار رہنے لگے اور بالآخر پندرہ فروری 1869 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

اردو شاعری کو نئے رجحانات سے روشناس کرانے والے یہ شاعر اردو ادب میں ہمیشہ غالب رہیں گے۔

مرزا غالبؔ: یوم پیدائش پر بر صغیر اور دنیا بھر کی اردو بستیوں میں جشن

مرزا اسد اللہ بیگ خان غالب اردو زبان کے ایک عظیم شاعر ہی نہیں ایک ایسی عوامی شخصیت بھی تھے جن تک عام رسائی لوگوں کے کے لئے کبھی دشوار نہیں رہی۔

غالب کے ان اشعار کو شاید کبھی فراموش نہ کیا جائے:

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غاؔلب‬
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے ‬
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

قید حیات و بند غم، اصل میں دونوں ایک ہیں‬
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا‬ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

Share this:

Post a Comment

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes