اردو ادب

 

اردو زبان پر مشتمل ادب اردو ادب کہلاتا ہے جو نثر اور شاعری پرمشتمل ہے۔ نثری اصناف میں ناول، افسانہ، داستان، انشائیہ، مکتوب نگاری اور سفر نامہ شامل ہیں۔ جب کہ شاعری میں غزل، رباعی، نظم، مرثیہ، قصیدہ اور مثنوی ہیں۔ اردو ادب میں نثری ادب بھی اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ شعری ادب، لیکن غزل اور نظم سے ہی اردو ادب کی شان بڑھی ایسا سمجھا جاتا ہے۔ اردو ادب ہندوستان اور پاکستان میں مقبول ہے، ہندوستا میں مشہور بھی ہے اور افغانستان میں بھی سمجھا اور پڑھا جاتا ہے۔

اردو کے عناصرِ خمسہ میں جن شخصیات کے نام آتے ہیں ان میں سر سید، حالی، نذیر احمد، شبلی نعمانی اور محمد حسین آزاد ہیں۔ ان میں سے آزاد کے علاوہ باقی چاروں براہ راست اس تحریک سے وابستہ رہے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ سرسید نے جو تحریک شروع کی تھی اس میں حالی،شبلی اور نذیر احمد سر سید کے داست راس رہے مگر آزاد ان کے شریک کار نہ تھے اور ان کی کوششوں کا رنگ تہذیبی اور معاشرتی نہیں تھا بل کہ خالص ادبی تھا مگر وہ بھی سر سید سے متاثر نظر آتے ہیں یا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ اردو کے عناصرِ خمسہ کی پہلی شخصیت سر سید ہیں سر سید قوم کی اصلاح کے لیے لکھ ریے تھے انھوں نے اپنے خیالات تقاریر اور تحریروں کے ذریعے عوام تک پہنچائے انھوں نے سادہ نثر کو فروغ دیا قدامت پرستی کا خاتمہ کیا اردو نثر کو استدلال سے روشناس کروایا اور عقلیت کو اپنایا ان کے دلاہل مضبوط اور زوردار ہوتے۔سادہ اور عام فہم اسلوب سے ہر خاص و عام تک بات پہنچائی صناہع بداہع سے نثر کو پاک کیا

اس دور کی دوسری شخصیت حالی ہیں جنھوں نے ادرو ادب کو سوانح نگاری ادو تحقیق سے آشنا کیا سوانح نگاری میں ان کی تین سوانح عمریاں "حیاتِ سعدی،یادگارِغالب اور حیاتِ جاوید" اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ان کا "مقدمہ شعروشاعری" جدید اردو تنقید کا پہلا عظیم کارنامہ ہے اس کے علاوہ "مجالس النساء" لکھ کر بچیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک اور کارنامہ سر انجام دیا۔

اس دور کی تیسری شخصیت ڈپٹی نذیر احمد ہیں جو اپنی بچیوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے اردو کے پہلے ناول نگار بن گئے۔نذیر احمد نے پہلی بار افسانوی ادب کو معاشرتی مسائل اور متوسط خاندانوں کی زندگی کا ترجمان بنایا۔ان کے ناول مراۃ العروس،توبتہ النصوع،فسانہِ مبتلا اور ابن الوقت آج بھی دلچسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔آپ بہترین مقرر بھی تھے ان کے مضامین بھی خاصے کی چیز ہیں۔نذیر احمد نے پہلی بار اپنی کتابوں میں ظرافت کی چاشنی سے کام لیا۔ان کا مشہور کردار"ظاہردار بیگ" اردو ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا نذیر احمد نے پہلی بار دہلی کی نسوانی زبان کو رواج دیا۔

اردو کے عناصرِ خمسہ میں چوتھی شخصیت شبلی کی ہے۔ شبلی ایک ہمہ گیر طبیعت کے مالک تھے لیکن ان کے مزاج پر تاریخی رنگ زیادہ گہرا ہے۔وہ اردو کے پہلے عظیم مورخ ہیں جہنوں نے اردو ادب کو تاریخی سوانح عمریاں عطا کیں۔ مثلاً "المامون، الفاردق، الغزالی، سوانح مولانا روم، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر اور سیرت النبوی" ادب تحقیق و تنقید میں "شعر الحجم اور موازنہ انیس ودبیر بھی ان کے دو شاہکار ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کے مقالات بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔شبلی کے علمی مشاغل کے بہت سے پہلو ہیں وہ مورخ بھی ہیں اور فلسفی بھی،نقاد بھی اور شاعر بھی غرض یہ کے وہ اپنی ذات میں ایک دبستان تھے۔

محمد حسین آزاد جو اس دور کے ایک بے مثال ادیب ہیں اردو ادب کے عناصرِ خمسہ کی آخری کڑی۔انھوں نے انگریزی زبان کی تقلید کرتے ہوئے پہلی بار اردو میں تمثیلی مضامین لکھے جو بعد میں نیرنگِ خیال کے نام سے شاۂع ہوئے۔اردو ادب میں آزاد کی حقیقی شہرت ان کی "آبِ حیات" کی وجہ سے ہے یہ اردو شاعری کی تاریخ بھی ہے اور تنقید بھی۔ آزاد ایک مورخ بھی ہیں اور محقق بھی،ایک نقاد ارو ادیب بھی اور ایک صاحبِ طرز انشا پرداز بھی ادروکے یہ پانچ بڑے نام جنوں نے اردو ادب میں انقلاب برپا کر دیا اردو ادب میں نئی اصناف کا اضافہ کیا۔ زبان و بیان میں سادگی اپنائی۔ یہ لوگ ادب برائے زندگی کے قاۂل تھے۔ان لوگوں نے ادب کو حقیقت سے روشناس کروایا، قدامت پرستی سے ادب کو نجات دلائی، ان لوگوں نے ادب میں عام طبقے کے مساۂل کو ابھارا۔یہ ایک تحریک ہے اور اس نے اردو ادب کو نئی ڈگر پر چلنے کے قابل بنایا۔اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نہ صرف اردو ادب کو یہ وقار حاصل ہوتا بل کہ اردو زبان کی یہ ترقی یافتہ شکل ہمارے سامنے نہ ہوتی۔ یوں کہیں کے ان لگوں نے اردو ادب میں ایک انقلاب برپا کیا جو نہ صرف اس دور میں بل کہ آنے والے دور میں بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔

 

آغاز

اردو ادب کا آغاز 14 ویں صدی میں شمالی بھارت میں ہوا۔ اس دور میں جو بھی سلاطین تھے ان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ اس وجہ سے اردو ادب پر فارسی ادب کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اردو زبان کی اصطلاحات کے ذخیرہ کو، سنسکرت سے ماخوذ پراکرت الفاظ، عربی، فارسی زبان کے الفاظ کا مشترکہ ملاپ سمجھا جاتا ہے۔ صرف زبان کا اشتراک ہی نہیں بلکہ ادبی، ثقافتی اشتراک بھی ہے۔


خاص کارنامے

اردو ادب کے آغازی دور میں حضرت امیر خسرو نام لیا جاتا ہے، یہ نہ صرف اردو ادب میں بلکہ ہندی ادب میں بھی کافی اہم ادیب مانے جاتے ہیں۔ اردو زبان اور اردو ادب کے بانیوں میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ امیر خسرو فارسی، عربی، ہندی زبان میں ماہر تھے۔ اردو زبان کا آغاز تھا، تو انہوں نے ان زبانوں کو مربی شکل میں اردو میں پیش کیا۔ ان کے علاوہ محمد قلی قطب شاہ جو دکن سے تعلق رکھتے تھے، اردو، فارسی، عربی اور تیلگو زبانوں پر کافی اچھا عبور تھا۔ یہ اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے، ان کی کلیات “ کلیاتِ قلی قطب شاہ“ ہے۔ تیلگو زبان میں بھی شاعری کہی۔ انہیں کی کاوشوں کے نتیجہ میں اردو زبان، ادبی زبان کی حیثیت سے جانی جانے لگی۔ ان کا انتقال 1611 میں ہوا۔[1]

سید شمس اللہ قادری کو دکنیات پر تحقیق کرنے کا سہرا جاتا ہے۔[2] ان کے تحقیقات سلاطین ع معبر 1929، [3] اردوئے قدیم 1930,[4] تاریخ ملیبار، [5] مورخینِ ہند، [6] تحفتہ المجاہدین 1931، [7] عمادیہ، [8] نظام التواریخ، [9] تاریخ زبان اردو-اردوئے قدیم، [10] تاریخ زبان اردو ال مسمے ٰ بہ اردوئے قدیم، [11][12] تاریخ زبان اردو یعنی اردوئے قدیم، [13] تاریخVol III,[14] اثرالکلام، [15] تاریخ، [16] شجرہ آصفیہ، [17] اہل یار، [18] پراچینا ملابار[19]

 

داستان گوئی


اردو ادب میں نثری ادب سے زیادہ نظمی ادب موجود ہے۔ جب بات نثری ادب کی آتی ہے تو صنف داستان کی تخلیقات زیادہ ہیں۔ ان داستانوں میں دیومالائی کہانیاں، قصے، کئی حالات کو بیان کرنے والی داستانیں وغیرہ۔

یہ صنف، قصہ گوئیوں پر، دلچسپ کہانی قصوں پر مبنی ہے۔ حقائق اور دلائل سے پرے داستانیں ہی اس صنف کے موضوعات تھے۔ فارسی مثنوی، پجنابی قصے، سندھی واقعاتی بیت وغیرہ داستانوی موضوعات بن گئے۔ سب سے قدیم اردو داستان حمزہ نامہ یا داستان امیر حمزہ ہے۔ میر تقی خیال کی بوستانِ خیال (1760) بھی اپنا خاصا مقام رکھتی ہے۔ اردو ادب میں جتنی بھی داستانیں ملتی ہیں وہ 19ویں صدی میں لکھی گئی ہیں۔ میر امن کی باغ و بہار، نہال چند لاہوری کی مذہبِ عشق، حیدر بخش حیدر کی آرائشِ محفل اور خلیل علی خان اشک کی گلزارِ چین وغیرہ اہم داستانیں ہیں۔[20] اور دیگر مشہور داستانیں حسین عطا خان تحسین کی نوطرز مرصع، مہر چند کھتری کی نو آئینِ ہندی (قصۂ مالک محمود و گیتی افروز)، شاہ حسین حقیقت کی جذبۂ عشق، سید محمد حسین جاہ کی طلسم ہوش ربا ہیں۔ 

 

Share this:

1 comment :

 
Copyright © اردوادب. Designed by OddThemes